پاکستان میں جنسی جرائم

پاکستان ایک نعمت خداوندی ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تا کہ مسلمان اپنے الگ وطن میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ پاکستان میں لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ فحاش فلمیں اور ڈرامے ہیں جن میں سسر بہو اور دیور بھاوج کے ناجائز تعلقات دکھائے جاتے ہیں۔ پھر ناظرین بھی اسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔

 رہی سہی کسر ٹک ٹاک، لائیکی اور اسنیک وڈیو جیسی بدنام زمانہ ایپلیکیشنز نے نکال دی ہے، پرانے وقتوں میں ناچ گانا اور فحاش کام ایک الگ مختص جگہ( کوٹھے) پر کیے جاتے تھے،ان جگہوں سے شُرفاء کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، شوقین لوگ پیسے نچھاور کرتے تھے اور ان رنگین محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے جبکہ اب ٹک ٹاک اور دیگر ایپلیکیشنز نے اس فحش کام کو مخصوص جگہ سے نکال کر ہر جگہ منتقل کر دیا ہے۔

 لڑکیاں صرف لائکس اور فالوور کے چکر میں اپنے جسم کی کھلے عام نمائش کرتی ہیں اور اس اسلامی ملک میں ان سے کوئی پوچھنے اور روکنے والا نہیں، کچھ تو شرعی داڑھی رکھے ہوئے افراد بھی ان وڈیوز کو بنانے سے باز نہیں آتے، ٹک ٹاک کے مضر اثرات تو بہت سے منظر عام پر آتے رہتے ہیں جن میں سے حال ہی میں یوم آزادی کے دن گریٹر اقبال پارک میں ہونے والا واقعہ قابل ذکر ہے، عائشہ اکرم نامی خاتون پہلے وڈیو بیان جاری کرتے ہوئے اپنے نام نہاد فالوورز کو مینار پاکستان بلواتی ہیں تا کہ وہ ان کے ساتھ تصاویر اور ٹک ٹاک وڈیوز بنا سکیں اور بعد میں وہی درندے اسکے کپڑے پھاڑتے دکھائی دیتے ہیں، ایک ریمبو نامی نظر وَٹو جو نہ اس کا بھائی ہے نہ ہی شوہر وہ اسکے گلے میں ہاتھ ڈالے پیچھے کھڑا دکھائی دیتا ہے،یاد رہے کہ اسی لڑکے کی بانہوں میں آنچل بچھائے موصوفہ کئی وڈیوز بنا چکی ہیں، جن میں وہ اس لڑکے کے گالوں پر ہاتھ پھیرتی ہے اور وہ اسے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتا ہے۔

 عائشہ صاحبہ پوری ٹیم کے ہمراہ مینار پاکستان جاتی ہیں اور پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت اسکینڈل بناتی ہیں جو کہ اصل منصوبہ سے بھی ایک ہاتھ آگے کا ثابت ہوتا ہے اور عوام اس کے بدن کے کپڑے بھی تار تار کر دیتی ہے، سستی شہرت اور فالوورز کے چکر میں اس لڑکی نے بے حیائی کی تمام حدیں پار کر دیں، مینار پاکستان میں داخل ہوتے ہی ایک فلمی سٹار کی طرح فلائنگ بوسے عوام کے لینا شروع کر دیے اور تمام لوگوں کو اپنی جانب مائل کیا گویا کہ اس بات کی دعوتِ عام دی گئی کہ میں بالکل تیار ہوں آپ لوگ میری جانب متوجہ ہوں۔

سیکورٹی گارڈز کےمطابق مطلوبہ لڑکی وہاں سے جا بھی سکتی تھی مگر چونکہ سستی شہرت اور اسکینڈل کا بھوت سوار تھا تو وہ وہاں سے نکلنے کا موقع ہونے کے باوجود واپس نہیں گئی، اس واقعہ کے تین روز تک کسی قسم کی مذمتی وڈیو یا کوئی FIR درج نہیں کروائی جاتی بلکہ اگلے دن مسکراتے ہوئے تصویر اپلوڈ کی جاتی ہے کہ جیسے مقصد میں کامیابی پر وہ بے حد خوش اور ان 400 بے وقوفوں کی بے حد ممنون ہے۔

 بعدازاں لڑکی کی مدعیت میں ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے پھر لڑکی مزید کاروائی سے منحرف ہوجاتی ہے.لڑکی کمال جھوٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے FIR میں گھر کا پتہ بھی غلط لکھواتی ہے. اس سارے ڈرامے کو کیش کرنے کے لئے کمال کا اداکار اقرار الحسن یاسر شامی کے گھر پہنچ گیا جہاں لڑکی کو بلوا کر انٹرویو لیا گیا، انٹرویو کے بعد درد برے الفاظ میں اقرار الحسن نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے میری کوئی بیٹی نہیں اور پاکستان میں کسی عورت کی عزت محفوظ نہیں۔

 دراصل اللہ اپنی رحمت انہی لوگوں کو دیتا ہے جو اس قابل ہوتے ہیں ورنہ اقرار الحسن جیسے نام نہاد اینکر کے پاس بھی یہ نعمت ہوتی. اقرار الحسن وہی انسان ہے جو جرائم کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد کے کہنے پر اپنی ٹیم کی ہمراہ جاتا ہے،  ان بااثر عناصر کی وڈیو بنا کر بعدازاں ان کو بلیک میل کر کہ پیسے بٹورتا ہے اور ان کا پروگرام آن ائیر نہیں ہونے دیتا. حال ہی میں کراچی کی ایک خاتوں نے بھی اپنے ایک وڈیو بیان میں اقرار الحسن پر یہی الزام لگائے، اقرار الحسن اور اس عائشہ نامی لڑکی کے ڈرامے کی وجہ سے پاکستان کی عالمی سطح پر بھی ساکھ متاثر ہوئی اور سستی شہرت کے داعی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے جبکہ انگریز خاتون موٹرسائیکل پر پورا پاکستان گھومتی پھرتی ہے مگر اسے کوئی کچھ نہیں کہتا اور وہ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لاتی ہے.حکومت کو چاہئیے کہ واقعہ کی تحقیقات کے سلسلہ میں عائشہ کو بھی شامل تحقیق کرے اور پولیس اس کا جوڈیشل ریمانڈ حاصل کر کے اصل حقائق عوام سامنے لائے۔

 لبرل طبقہ جو کہ ہر وقت مغرب کی نمک حلالی کی طاق میں رہتا ہے وہ اس وقت پاکستان کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے تا کہ حقوق نسواں کے نام پر مغربی ممالک سے گرانٹ لی جا سکے، انصاف سب کے لئے یکساں ہے، اگر عدالتی نظام کو درست کیا جائے اور فوری انصاف کی فراہمی کویقنی بنایا جائے تو جنسی جرائم کو روکا جا سکتا ہے، مدرسے میں طالبہ سے زیادتی کرنے والے مجرم کو عدالت نے مبلغ پچاس ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا اور تفتیش کے لئے پولیس کو اسے دوبارہ گرفتار کرنے سے بھی روک دیا۔

 اگر مُنصف اسی طرح بانجھ عورت کی طرح کام کریں گے اور انصاف جیسی نعمت عوام کو نہیں دیں گے تو پاکستان سے ان درندہ صفت عناصر کا خاتمہ کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا، لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ سے ماں بیٹی کو رکشہ پر سوار کر کہ بعدازاں ایل ڈی ایے لے جاکر گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنانے والے دونوں ملزمان پولیس کی زیر ہراست ہیں، ان کو بھی مدرسہ زیادتی کیس والے مجرم کی طرح چھوڑ دیا جائے گا تو عوام کہاں سے عبرت بکڑے گی؟ سوشل میڈیا کمپین کے ذریعے پریشرائز کر کے مجرمان کو گرفتار تو کروا لیا جاتا ہے مگر افسوس صد افسوس ان مجرمان کو ان کے منتقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا، اس ملک میں جنسی جرائم کو ختم کرنے کا واحد حل اسلامی شریعت اور شرعی سزاؤں کا نفاذ ہے تا کہ مجرم جنسی درندگی کرنے سے پہلے ہزار بار اس کی سزا کا سوچے اور اس طرح کا قبیح فعل ہرگز سرانجام نہ دے۔