ناموس رسالت اور علامہ محمد اقبال

شاعر مشرق، حکیم الامت، دانائے راز علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ (1877ء- 1938ء)  سچے مسلمان، صادق محب الہی اور حقیقی محب رسول تھے۔ ان کی شاعری میں ان کےافکار و خیالات کا پرتو نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنے پختہ اسلامی نظریات کے مطابق بڑی بامقصد اور بامعنی شاعری تخلیق کی ہے۔ گل و بلبل اور عشق و عاشقی کی شاعری کرنے والے عام روایتی شعراء سے ہٹ کر ان کی شاعری الگ، منفرد اور جذبات و احساسات  کی سچی عکاسی کرنے والی ہے۔ اس لیے دنیا ان کی شخصیت کی عظمت تسلیم کرتی ہے۔

علامہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق شاعری اور نثر میں انبیائے کرام کی عصمت اور ناموس رسالت پر خصوصی توجہ دی ہے، خصوصاََ رسول اللہ ﷺ، خاتم النبیین ﷺ، رحمت عالم ﷺ، دانائے سبلﷺ ، اور تاجدار عالم ﷺ کی ختم نبوت اور، حرمت رسول، عقیدہ ختم نبوت اور آپ ﷺ کی ناموس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ اس کی نوعیت باقی تمام معاملات اور قوانین سے منفرد اور نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ نبی کریم ﷺ کے پیروکار ہمیشہ ناموس رسالت کا فریضہ مختلف طریقوں سے ادا کرتے رہے ہیں۔ اور تا قیامت ادا کرتے رہیں گے۔

؎محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو ایمان نامکمل ہے

حکیم الامت نے قرآن مجید کے متعلق فارسی زبان میں شاعری کرتے ہوئے فرمایا

؎ گر تو می خواہی مسلماں زیستن

    نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

ترجمہ: “اگر تم مسلمان بننا چاہتے ہو تو یہ قرآن پر عمل کیے بغیر ممکن نہیں ۔” نبی مہربانﷺ کے اسوہ حسنہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار  کرتے ہوئے کہا کہ

؎ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

ایک دوسرے مقام پر رحمت عالم ﷺکی مدح کرتے ہوئے کہا کہ

؎ لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں احباب

وہ امت مسلمہ کے لیے درد دل ،حاضر دماغی اور بہترین تحریری صلاحیتیں (بشمول کثرت شاعری و قلت نثر نگاری) رکھتے تھے اور ان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ انہوں نے قلم و قرطاس کا کماحقہ استعمال کیا۔

ان کی شاعری میں یہ پیغامات جابجا نظر آتے ہیں۔ وہ نبی کریم ﷺ کی امت کے اتحاد کے بہت بڑے داعی تھے۔ اور مسلمانوں میں تفرقہ پرستی اور باہمی اختلافات کو پسند نہیں کرتے تھے۔

؎ فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

وہ مغربی تہذیب اور افکار و نظریات سے متاثر ہونے کے بجائے اسلامی تہذیب سے متاثر تھے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں دنیا و آخرت کی کامیابی اور فلاح و نجات سمجھتے تھے۔

علامہ اقبال نے ہمیشہ قران مجید اور نبوی اسوہ حسنہ کو ترجیح دی۔ ان کے دل و دماغ تاحیات قرآن و سنت سے معمور رہے۔ قرآن مجید پڑھتے ہوئے اور تذکرہ مصطفی ﷺکرتے ہوئے ان کا دل بےحد گداز ہوجاتا تھا اور وہ اشک بار ہو جاتے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہو جاتی تھی۔

آپ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال رقم طراز ہیں کہ”میں نے اماں جان کی موت پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا مگر قرآن سنتے وقت یا رسول اکرم ﷺکا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔”شاعر مشرق کو خاتم النبیین ﷺسے غیر معمولی شغف اور محبت و الفت تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری یادگار بن گئی ہے۔

؎ قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے

   دہر میں اسم ِ محمد ﷺ سے اجالا کردے

علامہ اقبال نے اسوہ حسنہ کی پیروی میں نوجوانوں کو امت کا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہوئے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کے غیرت مند نوجوانوں کو شاہین صفت بنانے کی کوشش کی۔ اور انہیں ہمیشہ خودی اور باعزت زندگی گزارنے کا درس دیا۔

؎اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرہ افتاد

ختم نبوت اور ناموس رسالت کی حفاظت میں نوجوان عموماً “سابقون الاولون” میں شامل رہے ہیں۔ نوجوان غازی علم الدین  نے گستاخی رسول پرمبنی کتاب چھاپنے کی وجہ سے اس کے ہندو ناشر راج پال کو توہین رسالت کے جرم کی پاداش میں قتل کر دیا ۔ جس کا نتیجہ خود اس کی اپنی شہادت بن گیا۔ علامہ اقبال نے اسے خود لاہور کے مشہور قبرستان میانی شریف میں لحد میں اتارتے ہوئےکہا تھا کہ “ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔”

انہوں نے بےمثال ادبی شاعری کی زبان میں قرآنی و مصطفوی تعلیمات، حرمت رسول، عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کا مقدس اور اہم ترین فریضہ سرانجام دیا۔ بھٹکی ہوئی امت مسلمہ کو ان کا باوقار اور عظمت و عزیمت سے منور ماضی یاد دلایا، حال اور مستقبل میں انہیں پرامید اور باعمل رہنے کی تلقین کی اور راہ حق پر گامزن رکھنے کی کوشش کی۔ اپنے قلم کی طاقت سے انہیں جھنجھوڑا، بیدار کیا اور امت مسلمہ کے غیور اور باوقار افراد ہونے کی ترغیب دلائی۔  انہوں نےمغرب سے متاثرہ احساسات و جذبات کی بڑی حکمت سے مذمت کی اور وہ اسلامی تہذیب کی عظمت و افتخار کو دلوں میں راسخ کرنے کی سعی پیہم کرتے رہے۔

ایک موقع پر علامہ اقبال نے ختم نبوت کے عقیدہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ختم نبوت کے عقیدے کی ثقافتی قدروقیمت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺنے ہمیشہ کے لیے اعلان فرمادیا کہ “آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہوگی۔ میرے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلاچون و چراں تسلیم کرلو۔” ختم نبوت ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت انسانی علم کے دائرے کو وسعت نصیب ہوگئی ہے۔”

انہوں نے ایک فارسی شعر میں کہا کہ

لا نبی بعدی زاحسانِ خدا است

پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیﷺ است

ترجمہ: “حضرت محمد ﷺ کا آخری نبی ہونا ہم پر اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان ہے اور آپ کا خاتم النبیین ﷺ ہونا دین مصطفی کے لیے ایک اعزاز ہے۔”

انہوں نے “تحفظ ختم نبوت” کے جہاد میں  اپنی بھرپور تحریری خدمات سر انجام دیں۔ تا کہ روز قیامت امتی کی حیثیت سے خاتم النبیینﷺ کے ہاتھوں سے انہیں جام کوثر پینا نصیب ہو اور ان کی شفاعت نصیب ہوجائے۔

پاکستان اور عالم اسلام کو علامہ اقبال کے خوابوں اور افکار کی سرزمین بنانے کے لیے قرآن وسنت کا نظام رائج کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے دین محمدیہ اور نظام مصطفی کا جلد ازجلد عملی اور کامل نفاذ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

؎ آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود

پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی