غلامی کا زیور

میں ایک آزاد انسان تھا، میں آزادی سے ہر جگہ گھوما پھرا کرتا تھا، میرے بہت سے دوست اور رشتہ دار تھے، میں ہر ایک سے مسکراہٹ سے ملا کرتا تھا، میں اپنی سرزمین سے بہت محبت کرتا تھا، جسے میں مادر وطن کہا کرتا تھا۔ میں اپنی قوم سے محبت کرتا تھا، مجھے اپنی رسم ورواج پر فخر تھا، میں جہاں بھی گیا مجھے ایسا آرام کہیں نصیب نہیں ہوا جس آرام و سکون سے میں اپنی سرزمین پر رہا کرتا تھا۔

میں ریتوں کی چوٹیوں پر چڑ کر نغمے گایا کرتا تھا، میں پہاڑوں کے دامن میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا تھا، پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ  کر اپنی سرزمین کا نظارہ کرتا تھا، قوم کے بچے مجھ سے محبت کرتے تھے، بڑے میری عزت کرتے تھے، ہر آدمی مجھ سے یہی توقع رکھتا تھا کہ میں پڑھ  لکھ کر ایک بڑا آدمی بنوں گا اور اپنی قوم وملک کی خدمت کروں گا، غریبوں کی مدد کروں گا، مسکینوں کا سہارا بنوں گا، یتیموں کا غمخوار رہوں گا، بزرگوں کا احترام کروں گا۔

 بچوں کو تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کروں گا، طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کروں گا، بے کار غریب نوجوانوں کو کام دلاؤں گا، نئی چیزیں تخلیق کروں گا، دُنیا میں نام پیدا کروں گا۔

اپنی قوم کو دوسرے قوموں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کروں گا، غداروں کو سرزمین سے نکال دوں گا، پیٹ پرستوں کے پیٹ کو مٹی سے بھردوں گا، لوگوں کو صحیح راستے پر گامزن کروں گا، آئین وقانون کی پاسداری کروں گا، لوگوں کے درمیان اتحاد پیدا کروں گا، عام لوگوں کو انصاف دلاؤں گا۔ غرض یہ کہ میں اپنی قوم وسرزمین کے ساتھ ایماندار تھا، میرا ضمیر زندہ تھا، میری نیت میں کوئی خلل نہ تھا، میں جیتا قوم کے لئے اور مرتا سرزمین کے لئے۔

 میں آسمان کے تاروں کو چھونا چاہتا تھا، میں دُنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہم اپنی سرزمین پر ایک زندہ قوم کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں، ہم دوسری قوموں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہنا چاہتے ہیں، میں جاہلیت کے عذاب سے قوم کو چھٹکارا دلانا چاہتا تھا، میں شعورکو ڈھونڈ رہا تھا، شعور میرے بالکل نزدیک آچکا تھا، میں اُسے دیکھ رہاتھا، میں اُس کی جانب بڑھ رہا تھا، میں خوشی محسوس کررہا تھا، میرے چہرے پر مسکراہٹ کی ایک لہر دوڑ رہی تھی، میرے ماتھے پہ روشنی چمک رہی تھی، میں اُڑان محسوس کررہا تھا، آزادی کا جھنڈا تھامنے والا ہی تھا کہ اچانک غلامی کی زنجیر نے مجھے آگھیرلیا، جس کے لیے میں بالکل تیار نہ تھا اور نہ کبھی میں نے اس کے بارے میں سوچاتھا۔

 میری آنکھوں میں کالی پٹی لگا دی گئی، میرے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں پہنا دیں گئیں، میرے پاؤں باندھ دئیے گئے، میرے دماغ کو ٹارچر کیا گیا، میرے ذہن کو برین واش کر دیا گیا، مجھے جسمانی اذیت دی گئی، میری زبان کو کاٹ دیا گیا، میں بے حسی کے عالم میں تھا، میں اپنے گھر کو اجڑتے دیکھ رہا تھا، دوستوں نے دوستی چھوڑ دی، رشتہ داروں نے رشتہ داری سے انکار کر دیا، جن کو میں اپنا سمجھتا تھا وہ میرے نہیں رہے، اس وقت مجھے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔

 مرنے کے لئے میرے سامنے اذیت ناک موت رکھ دی گئی، جینے کے لئے غلامی کا زیور، مجھے ان دونوں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا، میرے دماغ نے ٹارچر کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیا، زبان کٹ جانے کی وجہ سے کچھ بتا نہیں سکتا تھا، میرا جسم کانپ رہا تھا، آنکھوں پر لگے کالی پٹی کی وجہ سے میرے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا، مجھے کچھ سمجھ  نہیں آرہا تھا، زبان گونگی ہوگئی، کان بہرے ہوگئے، ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دئیے، پاؤں چلنے سے معذور ہوگئے، میرے گلے میں غلامی کا زیور پہنا دیا گیا۔

 لالچ میرا دوست بن گیا، میرا ضمیر مرگیا، اورمجھے لیڈر بنا دیا گیا، آج میں غلامی کا زیور پہن کر اپنی ہی قوم پر راج کر رہا ہوں، اب میں وہ نہیں رہا جو پہلے تھا، میں نہیں چاہتا کہ قوم کے غریب بچے پڑھ  لکھ کر کل میرے سامنے رکاوٹ بنیں، میں اُس طبقے کے بچوں کو تعلیم دلانے میں مدد کرتا ہوں جو غلامی کا زیور پہن کر میرے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ نوجوانوں میں شعور آجائے کیونکہ میں سرزمین کے پیٹ کو پھاڑ کر اُس کے خزانوں کو دوسری جگہ منتقل کررہا ہوں۔

اگرنوجوانوں میں شعور آئے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ میرے سامنے رکاوٹ بنیں گے، مجھے ایسا کرنے نہیں دیں گے، مجھے اس کی قطعاً ضرورت نہیں جو بھی آزادی کی بات کرے گا میں اُسے بغاوت سے تشبیہ دوں گا، جو تعلیم کی بات کرے گا میں اُس کے منہ پہ لگام لگا دوں گا، جو بھی اتحاد کی بات کرے گا میں اُس زنجیر کو توڑ ڈالوں گا۔ جو شعور کی بات کرے گا میں اُسے راستے سے ہٹا دوں گا، جو انصاف کی بات کرے گا میں اُس کی زبان کاٹ ڈالوں گا، جو حق کی بات کرے گا میں اُسے ٹارچر سیلوں میں بند رکھوں گا کیونکہ میں اس سرزمین کا رہنا والا باسی ہوں، میں ہی اس کا مالک ہوں اور اب میں نے غلامی کا زیور پہن رکھا ہےاس لئے مجھے آزادی چاہنے والوں سے نفرت ہے، اگر میرے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہو تو غلامی کا زیور پہن لو۔ میں تمھیں دولت کا زیور پہنا دوں گا اب تمھارے پاس صرف ایک راستہ ہے، مجھے راستے سے ہٹا دو ورنہ میں تمہیں راستے سے ہٹا دوں گا۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.