سوشل میڈیا ہماری خلوت کا امتحان

قارئین محترم!

          آج کے اس دور میں بہت بڑی آزمائش، بڑا امتحان موبائل اور سوشل میڈیا ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً ساڑھے سات ارب انسان بستے ہیں۔ ان میں تقریباً پانچ ارب لوگوں کے پاس موبائل موجود ہے۔اور ان میں سے تقریباً تین ارب افراد سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک چلاتے ہیں۔ اور ان میں زیادہ لوگ تقریباً تیس سال سے کم عمر کے ہیں۔

ان میں سے کچھ اس حد تک عادی ہو گئے ہیں کہ ماہرین اسے نشہ کا نام دیتے ہیں۔ پہلے تو نشہ صرف افیون، چرس، انجیکشن اور شراب کے ساتھ کیا جاتا تھا اور اب یہ وہ نشہ ہے جو بجلی پہ چلتا ہے۔ یہ منشیات برقی ہے اور اس نشے میں ملوث ایک بڑی تعداد ایسے بیٹے اور بیٹیوں کی ہے جن کا دن میں سب سے آخری کام رات کو سوتے ہوئے پوسٹنگ کرنا ہے اور صبح اٹھتے ہی پھر آن لائن ہو جانا ہے اور فیس بک کھولنا ہے۔

پھر اس فتنے کے مختلف پہلو ہیں۔ فکری، نظریاتی،مذہبی، معاشرتی و تمدنی۔ اس کے کئی ریفرنسز (References)  ہیں جن کے ساتھ  آپ کی توجہ مبذول کروانا مطلوب ہے۔ ان میں فتنہ شہوت ، فتنہ آوارگی، فتنہ نظر بازی اور فتنہ فحاشی و بے حیائی وغیرہ شامل ہیں۔

یہ اس کثرت سے سوشل میڈیا کی وجہ سے پھیل چکا ہے کہ اب مسجدیں، سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز، بازار، مار کیٹیں، پلازے، ہمارے بیڈ رومز اور ڈرائینگ رومز کی حد تک نہیں، بلکہ معاف کیجیے گا یہ فتنہ اس حد تک پھیل چکا ہے کہ اس سے اللہ کا گھر بھی محفوظ نہیں۔ وہاں پر بھی لوگ پوز بناتے ہوتے ہوئے، سیلفیاں لیتے ہوئے، اور اس کو اپلوڈ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریر کے ذریعے چند بنیادی باتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ اس حوالے سے چند پوائنٹ پیش خدمت ہیں تاکہ ہم خود کو محفوظ کر لیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کر لیں تو کیا انعام ملے گا۔

  1. سب سے پہلے جو شخص اپنی تنہائیوں میں فیک اکاؤنٹس، فیس بک پیجز، واٹس اپ گروپس اور یو ٹیوب چینلز میں اپنی انگلیوں کے پورے ٹچ (touch) کرتے ہوئے غلط بات اور تصویر آنے پہ ڈر جاتا ہے۔ تو اللّٰہ کا اس سے وعدہ ہے کہ وہ اس کی ساری زندگی کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔

2.دوسرا انعام یہ ہے کہ تنہائی میں انٹرنیٹ کے گلوبل ویلج میں پوری دنیا کو اپنی دس انگلیوں میں سمیٹ کر اور اپنے ایک کلک سے دنیا کے ہر منظر کو دیکھنے کا پوٹینشل (potential) ہونے کے باوجود خشیت الٰہی اور اللہ کے ڈر کی وجہ سے غلط منظر دیکھنے سے باز آ جائے تو اللہ کا اس سے وعدہ ہے کہ قیامت کے دن جب ہر جان کے لالے پڑے ہوں گے، وہ تن تنہا قبر سے اٹھے گا، انبیاء بھی “رب نفسی” پکار رہے ہوں گے۔انساں اپنی ماں سے، بیٹوں سے، بچوں سے، بھائی سے، بیوی سے، برادری سے، دوستوں اور جگری یاروں سے جان چھڑاتے ہوئے بھاگتا ہوگا تو اللہ رب العزت اس کو اس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا۔

صحیح بخاری میں نبی محترم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ

“اللہ تعالیٰ اس دن سات قسم کے انسانوں کو اپنے سائے میں جگہ دے گا اور ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جو اپنی تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں۔” اب قارئین کے سامنے دو سزاؤں کا تذکرہ بھی کرنا چاہوں گا۔

  1. اگر انسان تنہائی میں نڈر اور بے خوف ہو جائے اور یہ سوچنے لگے کہ اب مجھے نہ تو دنیا کا کوئی انسان، نہ والدین دیکھ سکتے ہیں تو وہ جب بھی سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے تو کسی برے منظر پر ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہتا ہے۔ وہ گناہ میں خود کو آنکھ اور کان کے ذریعے ملوث کرتا ہے۔ یہ بات سوچے بغیر کہ مجھے یہ منظر دیکھنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ تو اس سے پہلا فوری اثر یہ ہو گا کہ اس کا دل پتھر کی طرح سخت ہو جائے گا۔اور گناہوں کے اندھیروں سے بھر جائے گا۔

اس حوالے سے آئمہ کرام نے عظیم باتیں لکھی ہیں۔ اور مجھے حیرانگی ہوتی ہے ان عظیم ہستیوں پر کہ وہ کتنی گہری اور دقیق باتیں کرتے ہیں اور شریعت کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر کتنے قیمتی موتی ہمارے اوپر نچھاور کرتے ہیں!!!

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:

“حجر اسود وہ پتھر ہے جو جنت سے نازل ہوا اور جب یہ نازل ہوا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا ، آدم کے بیٹوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔”

محدثین حدیث لکھتے ہیں کہ:

“دل تو نرم و نازک ہے، اس پہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا اثر ہوتا ہے، چھوٹی سی خبر پر اسے اٹیک ہو جاتا ہے اور گھائل ہو جاتا ہے۔اس پہ گناہوں کا اثر کیسے نہ ہو، گناہ تو جنت سے نازل ہونے والے پتھر کو بھی سیاہ کر دیتے ہیں۔جو گناہ پتھر کو سیاہ کر دیتے ہیں، وہ ہمارے دلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔”

اگر ہم ایک دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے پانچ گھنٹے بھی سوشل میڈیا پہ گزاریں اور ان میں سے آدھا گھنٹہ بھی اگر غلط منظر دیکھنے میں، غیر محرم کو دیکھنے میں ، غلط پوسٹ شئیر کرنے میں گزاریں یا برہنہ تصویروں کو دیکھنے میں اپنا وقت لگاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ہو گا کہ حدیث کے مطابق”اگر آدم کا بیٹا ایک گناہ کرے تو اس کے دل میں ایک داغ لگتا ہے اور اگر ایک گناہ اور کرے تو ایک داغ اور لگ جاتا ہے۔حتی کہ اس کا دل سیاہ ہو کر مردہ ہو جاتا ہے۔”

پھر نیکی اور گناہوں کی پہچان ختم ہو جاتی ہے۔ جب پہچان ختم ہو جاتی ہے تو وہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا۔ اس کے ذہن میں یہ شعور ہی بیدار نہیں ہوتا کہ یہ بھی گناہ ہو سکتا ہے۔ وہ یہ سوچتا ہی نہیں کہ موبائل اور انٹرنیٹ سے غلط پیغام رسانی، تصویریں دیکھنا، غلط کالز کرنا بھی گناہ ہے۔ جب خیر اور شر کا فرق ختم ہو گیا تو دل پتھر ہونے کا ساتھ سیاہ بھی ہو گیا اور مریض بھی۔

  1. دوسرا رزلٹ یہ نکلتا ہے کہ اس کا دل نماز، روزہ، قیام، تہجد، تفسیر، حدیث، خیر خواہی اور ہمدردی کے کاموں میں بالکل نہیں لگتا۔

چاہے رمضان کا مہینہ ہو ،وہ بیت اللہ میں بیٹھا ہو۔ خانہ کعبہ سامنے ہو اور وہ امام السدیس کی اقتداء میں نمازیں پڑھے، ان کی زباں سے قرآن مجید کے تیس پارے بھی سن لے، لیکن اگر دل مریض ہو چکا ہے تو اس کی آنکھ سے ایک بھی آنسو نہیں نکلے گا۔

یہ مریض دل اچھی اور خیر کی بات سنتے ہوئے بے چین رہے گا کہ میں کہاں پھنس گیا ہوں؟ کب ان باتوں سے میری جان چھوٹے گی؟ کیونکہ وہ تلاوت وعبادت کی شیرینی و حلاوت سے نا واقف ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

“لذتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ شیطانی لذتیں، رحمانی لذتیں” کفر کی لذتیں،ایمان کی لذتیں، نفس کی لذتیں، روح کی لذتیں۔

جو شیطانی لذتوں کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر وہ ایمان کی لذتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔نماز پڑھتا ہے لذت کے بغیر، تلاوت ہو گی تدبر کے بغیر، قرآن پڑھے گا دل میں اترے بغیر، حج اور عمرے ہوں گے اثر کے بغیر، نیکیاں ہوں گی حلاوت اور مٹھاس کے بغیر۔

پھر امام صاحب اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے ایک صحت مند بندے کو سب چیزوں کا ذائقہ اچھا لگتا ہے لیکن یہی شخص جب بیمار ہو جاتا ہے تو اچھے بھلےانار، سیب اور انگور کا ذائقہ اس کو اچھا نہیں لگتا۔ سیب لذیذ ہوتا ہے لیکن اس کو کڑوا لگتا ہے۔ انار اور انگور کا بھی اپنا ذائقہ تو اچھا ہی ہو گا لیکن چونکہ اندر سے زبان کا ذائقہ خراب ہے۔ بخار اور کڑواہٹ کی وجہ سے اسے اچھی چیزوں کا ذائقہ نہیں ملتا۔ یہی حال ہوتا ہے اس انسان کا جس کا دل اندر سے بیمار ہو جائے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ

ترجمہ: “یہ قرآن نصیحت ہے لیکن اس کے لیے جس کے پاس دل ہو، اور حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر بات سنے۔”  (سورہ ق:37)

یہ نیکیوں سے خوش ہونے والا اور اسے انجوائے کرنے والا دل ہوتا ہے اور جس کے پاس یہ دل نہیں ہو گا، اس کا دل مردہ ہوا، تو آنکھیں مردہ ہوئیں، ہاتھ اور کان مردہ ہوئے۔ پورا انسان چلتی پھرتی لاش ہوگا۔

آنکھیں ہوں گی لیکن وہ دیکھے گا نہیں جو قرآن دکھانا چاہتا ہے۔ کان ہوں گے، لیکن وہ یہ نہیں سنے گا جو قرآن سنانا چاہے گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ جہنم کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

ترجمہ: “یہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل ہیں، لیکن وہ سمجھتے نہیں، آنکھیں ہیں لیکن دیکھتے نہیں، کان ہیں لیکن سنتے نہیں۔ یہ جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔” (الاعراف: 179)

یہی آج ہمارا حال ہو چکا ہے۔ لاشے اٹھا کر بھی ہمیں آخرت کی یاد نہیں آتی، جنازے پڑھ کر بھی موت یاد نہیں آتی، قبرستان میں جا کر بھی آخرت کی فکر پیدا نہیں ہوتی۔کیونکہ دل سخت اور بیمار ہو جاتا ہے۔ پھر ایسی اسٹیج آتی ہے کہ دل اندر سے مر ہی جاتا ہے۔

آخر میں دو علاج بھی ذکر کروں گا۔ یہ سوچ، یہ فکر کہ موبائل کی تنہائیوں میں خوف کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ پہلا علاج سورہ ملک کی یہ آیت مبارکہ ہے۔

ترجمہ: “اور تم خواہ چپکے سے بات کرو یا بلند آواز سے، بلاشبہ وہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ کیا وہ نہیں جانے گا جس نے (سب کو) پیدا کیا ہے؟ اور وہ باریک بین اور ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہے۔”

یاد رکھیں!! آپ آہستہ باتیں کریں یا بلند آواز میں، سرا یا جھرا کریں، سرگوشیوں یا ڈنکے کی چوٹ پہ کریں۔ موبائل کو کوڈ لگا کر یا ڈی کوڈ کرکے، فیک اکاؤنٹس پہ کریں یا حقیقی اکاؤنٹس پہ کریں۔ اس سر زمین پہ کریں یا بیرون ملک، گھر میں کریں یا سکولز، کالجز میں، بس اتنا یاد رکھیں!! وہ اللہ جو آپ کا خالق و مالک ہے وہ آپ کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے۔ بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے جو سینوں میں چھپا ہے۔

وہ موبائل کی کالز، میسجز اور پوسٹنگ کی نیتوں کو اور دل کے ارادوں کو خوب جانتا ہے۔ اس کا نام خبیر ہے، وہ لمحے لمحے سے باخبر ہے۔ اس کا نام لطیف ہے، وہ اس کی گہرائیوں سے بھی واقف ہے۔ اور یہ خبر کہاں پہنچے گی اس سے بھی آگاہ ہے۔ وہ بصیر ہے جو براہ راست دیکھتا بھی ہے۔ شہید ہے کہ ہر چیز پہ گواہ ہے۔ رب العزت نے اپنی صفات گنوائی ہیں کہ وہ ہر بات سے آگاہ ہے۔

دوسرا علاج جب بھی کوئی انٹرنیٹ کی دنیا میں بیٹھے ہوئے کوئی غلط منظر بھی دیکھتا ہے، اس کے اندر ایمان کی ہلکی سی چنگاری یا تھوڑا سا احساس باقی ہے۔ وہ پوری طرح مردہ نہیں ہوا تو وہ ضرور چھپتا ہے۔ قفل بندی کا انتظام اور دروازے بند کرتا ہے۔ وہ پاسورڈ یا سیکیورٹی یا پیٹرن کا اہتمام کرتا ہے اور کسی کے دیکھنے پر ہسٹری ڈیلیٹ کیسے کرنی ہے؟ اس حوالے سے بھی سوچتا ہے۔

یہ سب سوچتے ہوئے تھوڑا سا یہ بھی سوچ لیا کریں تم چھپ جاؤ جتا چھپنا چاہتے ہو، دروازوں کو مقفل کر لو لیکن یاد رکھو!! اس عرش والے سے کیسے چھپو گے؟ اور دوسرا یہ کہ اپنے ہاتھ، پاؤں اور باڈی سے کیسے بچو گے؟

اوپر سے رب دیکھ رہا ہے اور پھر وہ ان اعضاء سے پوچھے گا کہ “بتاؤ میرا بندہ تمھیں کیسے اور کہاں استعمال کرتا تھا؟؟”

قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ

ترجمہ: “یہاں تک کہ جب (سب) جہنم کے قریب آ پہنچیں گے تو ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف وہی گواہی دیں گے جو عمل وہ کیا کرتے تھے۔”  اور  ترجمہ: “آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔” (سورہ یسین: 65 )

آنکھیں بولیں گی کہ “اس نے دیکھتے ہوئے حرام ، حلال کی تمیز نہیں کی، ساری گندگی دیکھی۔” اللہ تعالیٰ کانوں سے پوچھے گا “تم بولو کہ یہ بندہ کیا سنتا تھا؟؟” کان اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اسی طرح ہاتھوں سے سوال ہو گا۔ وہ گواہی دیں گےکہ”یا اللہ!! یہ ایسے کرتا تھا۔”

تو ایسے میں نجات کا ایک ہی راستہ ہےکہ ہم پاک کریں اپنے موبائلز کو، اکاؤنٹس کو، میموری کارڈز کو، لیپ ٹاپز، پی سی ٹویٹس اور پوسٹس کو۔ آج کل آئی۔ ٹی کے دور میں ہم خود کو بچا نہیں سکتے جب تک سب کچھ اتنا پاکیزہ نہ کر لیں کہ وہ رب سارا ڈیٹا اوپن کرے تو ہمیں اس کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔