نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

تہذیب دراصل کسی قوم کے ان اعلیٰ ارفع طور و اطوار کا نام ہے جو اسے دوسری قوموں میں ممتاز کرتے ہیں مگر یہی تہذیب جب دوسری تہذیب کے اثرات قبول کرتی ہے تو اپنا آپ کہیں کھو دیتی ہے ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا ۔

مسلمان قوم کے عزائم اور ہمت اور حوصلہ سے تو ابلیس بھی گھبراتا ہے مگر اس نے بھی مہلت لی ہوئی ہے گمراہی کے اندھیروں کو پھیلانے کی ۔اگر سیدھے سادے انداز میں برائی سامنے آتی ہے تو یقینا مسلمان قوم اسے قبول نہیں کرتی یہیں ابلیس نے اپنی چال چلی اور” سوئٹ ریپر ” میں لپیٹ کر ہماری رگوں میں زہر گھولنا شروع کیا۔

 اسکی ابتدا روشن خیالی کے نام سے ہوئی جس نے مرد اور عورت دونوں پر یکساں اثرات مرتب کیے۔ اس روشن خیالی نے قوم کو ایسے سانچے میں ڈھالا جہاں چند کتابیں پڑھ کر بیٹھے صحیح غلط کی راہ دکھانے والے باپ کو خبطی سمجھنے لگے ،خاندانی روایت مجروح ہوئیں، حقوق نسواں کی آڑ میں عورت کو آزادی کی چاہت ہوئی تو اپنی روایات اور اقدار کو بھلا کر “شوہر پرست بیوی سے پبلک پسند لیڈی” اور” چراغ خانہ سے شمع محفل” بننے کا سفر شروع ہوا اور ” آ نر اور تنخواہ “کے حصول کے لیے کوشاں معاش کی چکی میں پستے مردوں کی وہ حالت ہوئی کہ “بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے”۔

 برابری مرد و زَن کے نعرے نے ترقی تو خیر کیا دکھائی؟ ہونٹوں پہ لا لی، کانوں میں بالی اور چال متوالی لئے ٹک ٹاک بناتے لڑکے اور خود کو سبھا کی پریاں سمجھتی مغربی وضع و قطع میں حجاب تودرکنار دوپٹے سے بھی بے نیاز لڑکیاں نظر آئیں جو بسکٹ بھی ناچ کر اور گاکر بیچتی ہیں۔

 ان آزادی افکار، لادینیت ،نئی روایات ،خود غرضی ،بے حسی ،مادیت پرستی اور بے حیائی کا نتیجہ” میری مرضی” کی صورت میں نکلا برابری مردوزن کا نتیجہ” اپنا کام خود کرو” کی صورت میں نکلا۔

ابلیس نے کارندے مانگے اور ہم اس کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے، وہ تہذیب جو چودہ سال پہلے دین اسلام نے ہمیں سکھلائی  وہ زوال پذیر ہوئی اور وہ پردہ جو مومن عورت کی پہچان تھا کے اس کے سبب وہ دور جہالت میں بھی پہچان لی جاتی تھی کہیں کھو گیا بلکہ فرنگیانہ سحر میں ڈوب کر بے حسی کی نظر ہوگیا اور دل یہ کہنے پر مجبور ہوگیا۔

“نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے،” یقین جانیے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آزادی افکار ابلیس کی ایجاد ہے۔ تہذیب حاضر کی صناعی جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے اور آزادی نسواں دراصل باطن کی گرفتاری ہے۔

ہم جس تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس دین کی مرہون منت ہے جو چودہ سو سال پہلے مکمل کر دی گئی تھی۔ حجاب یا نقاب کو مذاق سمجھنے والے یا اولڈ فیشن کہنے والے افراد کے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے “نئی،” بعد میں آنے والی چیز ہوتی ہے پرانی چیز اگر اپنی حالت بدل کر واپس آجائےپھر بھی اس میں نیا پن کچھ نہیں ہوتا یہی معاملہ حجاب کے ساتھ ہے کہ دور جاہلیت میں عورتیں کھلے عام بے حجابانہ پھر تی تھیں جیسے آ ج کی عورت محفلوں میں شرکت کرتی ہےمگر اسلام نے دین کے ساتھ ساتھ نئے طور طریقے سکھائے جس میں اسے ایک حجاب ہے ۔ تو اصولی طور پر حجاب اب نیا فیشن ٹھہرا اور بے حجابی پرانا دستور۔ جو آپ کی اپنی نا اہلی کی وجہ سے سے پلٹ کر رائج ہو چکا ہے اور آپ ماڈرن بننے کے چکر میں میں قدیم ترین چیزوں کو اپنائے جا رہی ہیں ۔ یقین جانیے حجاب ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں پوری تہذیب ہے جو با حیا عورت کو معاشرے میں مقام دینے کے لیے رائج کیا گیا ہے۔یہ نئی تہذیب کا ایجنڈا ، بےحجابی اور بے حیائی کو پھیلانے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور دور قدیم کی تہذیب کی نشانی ہےجو دور جہالت تھا۔اپنی تہذیب سے منہ نہ موڑیں۔جہالت سے دوبارہ رشتہ نہ جوڑیں کیونکہ بقول اقبال

 اس قوم میں ہے شوخی ے اندیشہ خطرناک

  جس قوم کے افراد ہوں ہر فکر سے آزاد

 گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ

 آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد