مسلمانوں کا مائینڈ سیٹ

صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتاہے  اور معاشرہ  دراصل  صحافی کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے  اس لحاظ سے یہ ایک بڑی اہم زمّہ داری ہے جو ایک صحافی   ادا کرتاہے ۔ ایک لحاظ سے وہ قوم و ملک کا امین بھی ہوتاہے ۔ لیکن یہ احساس اس وقت نکل جاتاہے جب  اس کے دل سے خد ا کا خوف نکل جاتاہے اور اس کا قلم  شیطان یا طاغوت کے لیے اٹھتا ہےاور وہ اپنی صلاحیت کو طاغوت کی خدمت میں صرف کرتاہے  اور وہ معاشرے کو  حقیقت کے علاوہ  کچھ اور ہی   دکھاتاہے ۔حالات و  اقعات کو توڑمروڑ کر پیش کرنا  اس کا مشغلہ بن جاتاہے ۔وہ معاشرے میں امیدوں کی شمع روشن کرنے کے بجائے قوم اور ملک کو مایوسیوں کی کی طرف لے جاتاہے ۔

یوون ریڈلے،  ایک برطانوی صحافی جن کا تعلق برطانیہ سے ہے سنڈے ایکسپریس کی چیف رپورٹر   ، سنڈے ٹائمز ،آپزور اور انڈیپنڈنٹ آف سنڈے میں خدمات انجام دیں  اس کےعلاوہ  CNN اور دیگر چینلز میں بھی خدمات انجام دیتی رہیں ہیں، 28 ستمبر 2000 میں طالبان نے جاسوسی کے الزام  میں  انہیں گرفتار کیا ۔دس یا گیارہ دن بعد جب یہ بات ثابت ہوئی   کہ یوون ریڈلے جاسوس نہیں بلکہ صحافی ہیں، رہائی کا پروانہ ملا جب اپنے وطن پہنچیں  ایک عجیب  بھونچال تھا ہر کوئی  ان  کی زبان سے  طالبان کی قید کے دوران غیر انسانی رویّوں کی روداد   سننے کے لیے بے قرار تھا مگر اس صحافی نے  کمال دیانتداری سے ساری روداد  کہہ ڈالی  ان کی کتاب In the hand of Talbanکا اردو ترجمہ موجود ہے آج دنیا  ان کو عزت مآب مریم ریڈلے کے نام سے دنیا جانتی ہے۔

ماضی قریب میں ایک وویڈیو وائرل ہوئی تھی  جس میں دکھایا گیا تھا   کہ ایک لڑکی کو طالبان کوڑے لگارہے ہیں   الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ایک طوفان آگیا  بغیر کسی تحقیق کے  ایک بات گھڑی گئی ایک چینل پر جماعت اسلامی سندھ  کے سابق  امیر اسد اللہ بھٹو صاحب  کو ٹا ک شو میں  دعوت دی گئی اور اسی ویڈو کو موضوع بحث بنایا گیا  اس میں انہوں نے کہا کہ یہ  ویڈیوں جعلی ہے  اس میں کوئی صداقت نہیں ہے یہ اسلام دشمنی میں  کی گئی ایک سازش ہے دوسرے صاحب بڑھ بڑھ کر  دلائل دے رہے تھے  کہ فریق اوّل نے  دوسری پارٹی کے رہنما سے سوال کیا کہ  جنرل ضیاء مرحوم کے زمانے میں آپ بھی کوئی غلطی کربیٹھے تھے ، آپ کوجو دس کوڑے لگائے گئے تھے  آپ تو اپنے پیروں پر چلنے  کے قابل نہیں رہےتھے   سڑیچر پر ڈال کر لے جایا گیا  ، کیا ایک نازک سی خاتون  کو اتنے  کوڑے لگائے گئے  اور وہ کوڑے لگنے کے بعد کپڑے جھاڑ کر کھڑی ہوگئی ؟ یہ کوئی عقل میں آنے والی بات ہے  اس کے بعد ا ن صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

یوم آزادی  کے موقع پر مینار پاکستان پر جو کچھ ہوا  اس کے حقائق سامنے آنے چاہیئں  تفتیش کا دائرہ دونوں طرف  بڑھانا چاہیئے ۔ اندھے اور بہرے بن کر  کسی ایک فریق  کی طرفداری نہیں کرنی چاہیئے۔یہ محض حادثاتی طور پر واقعہ رونما نہیں ہو ا ہے بلکہ  یہ پہلے سے طے شدہ  تھا ۔سستی شہرت اور وویور  اور لائیکس  میں اضافے کے لیے کوئی  بے ضمیر  انسان کسی حد تک جاسکتاہے اس کو نہ اپنے مذہب کا پاس ہوتاہےنہ  اس کی نظر میں اپنے ملک کی عزت کا کوئی مان ہوتاہے وہ اپنے مفاد کےلیے  اپنے باپ کی پگڑی کو بھی اچھال سکتاہے ۔  اس  معاملے میں حکومت  نے کافی پھرتی کا مظاہرہ کیا ہےاور مجرموں کی گرفتاریا  ں بھی ہوئی ہیں  اور سزائے موت اور دوسری سخت قسم کی سزا دینے کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں ،  تحقیقات کا دائرہ ایک ہی طرف   بڑھتا جارہا ہے  ۔ مجرم کوئ  بھی ہو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن  کیا موٹر وے کے مجرموں کو سرے عام پھانسی ہوگئی ،  کیا نور مقدم کے معلوم قاتل  کو سزا  ہوگئی   ؟ایک قاتلوں کی طویل فہرست ہے اور دوسری طرف مقتولوں کی لمبی فہرست ہے ۔

 اب آتے ہیں اخبارات کی طرف   لاہور واقعے  کے بعد  کچھ مشہور کالم نگاروں کے کالم  کا مطالہ کیا  ، پہلے بھی کچھ اندازہ تھا کہ   ا س واقعے کو کس کس  تناظر میں دیکھاجائے گا اور لکھا جائے گا   22 اگست 2021 روز نامہ ایکسپریس  میں جاوید چوہدری کا کالم تھا  “یہ ہم ہیں  ”  یہ کالم  ایک ایسی مثال ہے کہ انسان   حیران رہ جاتاہے کہ ایک ایسا فرد جو پاکستان میں رہتا ہو جس کو پاکستان نے  پہچان دی  ہو وہ بھی اس ملک کا چہرہ اس طرح مسخ کرسکتاہے  اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ  مغرب کی محبت میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ ایک مسلمان ہیں انہوں نے اسلام  اور مسلمانوں کو خوف کی علامت  قرار دیا  انہوں  مسلمانوں کے مائنڈ سیٹ  کو ہی نشانے پر رکھ لیا ہے    ۔کالم کے چند گوشے  پڑھنے اوران پر افسوس کرنے کے قابل ہیں ۔

” شاید یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی ،ہم مسلمان دنیا کی واحد قوم ہیں جس کی مقدس ترین عبادت گاہ (خانہ کعبہ )میں عبادت کے لیے بھی عورت محرم کے بغیر نہیں جاسکتی ،آپ خوف کا عالم دیکھ لیجیے ہماری عورتیں محرم کے بغیر حج اور عمرہ بھی نہیں کرسکتیں جب کہ عوتیں ویٹی کن سٹی سے لے کر لہاسا  تک اکیلی جاتی ہیں اور عبادت کے بعد واپس آجاتی ہیں ۔” ایک دوسری جگہ اسی کالم میں لکھتے ہیں کہ “ملالہ یوسف زئی  نوبل انعام کے بعد بھی پاکستان نہیں آسکتی جب کہ یورپ نے اس مسلمان لڑکی کو نوبل انعام بھی دیا ،یہ اسے اعلیٰ تعلیم بھی دے رہے رہا ہے اور اسے سیکورٹی اور عزت بھی یہ فرق ہوتا ہے ایک مہذب اور محفوظ اور غیر محفوظ اور غیر محفوظ معاشرے میں ” اس کے علاوہ  جاوید صاحب نے پاکستانی  بالخصوص اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے مائینڈ سیٹ  کو ان واقعات کا زمّہ دار بتایا ہے ۔انہوں نے اپنے کالم میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات   کا تعلق  مائینڈ سیٹ سے ہے نہ کہ سخت قوانین سے ہے۔

اسلام  انسانوں کے لیے فلاح کا ضامن ہے   وہ دنیا میں بھی انسان کامیابی عطا کرتاہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا ضمانت ہے ۔اللہ تعالٰی اپنی کتاب میں بار بار یہ فرماتاہے کہ” شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے  ” وہ انسان کی دنیا بھی برباد کرتاہے اور اس کی آخرت کو بھی تباہ کرتاہے۔اسلام ہی ہے جو انسانوں کو  ہر طرح سے امن عطا  کرتاہے ۔ جاوید چوہدری نے  سادہ سی بات کو  الجھا دیا ہے ان کو یہ سمجھنا چاہئیے تھا کہ  ایک ایسا معاشرہ جہاں  مسلمان تو بستے ہوں مگر وہ اسلام پر پورے عمل نہ  کرتے ہوں آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہوں وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ  کہلانے کا حقدار کیسے ہوا ، جہاں عوام کی انفرادی زندگیوں میں  اسلام پایا جاتاہوں مگر وہاں  اقتدار اسلام کے باغی لوگوں کے ہاتھ میں ہوں ، جہاں کی عدالتوں میں مسلمان جج تو  ہیں مگر وہ قرآن کی روشنی میں فیصلے نہیں دیتے،  معاشی نظام بھی سود پر مشتمل ہے ملک کا وزیر اعظم  سود کے حق میں عدالت  میں دلیلیں دیتاہے ،اسلام اپنا پورا تعلیم نظام  رکھتاہے مگر  اس کو  بالائے طاق رکھ کر  مغربی تعلیم نظام پر رال ٹپکائی جاتی ہے ، یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں  الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا    آزادی اظہار کے نام پر اسلام کی دھجیاں بکھیرنے میں  طاق  ہے۔جاوید چوہدری بھی اسی قبیل کے کالم نگار ہیں حج پر محرم کے ساتھ جانا کسی خاتون  کا ,اس کا حکم تو اللہ کے رسول ﷺ نے دیا ہے جس کی متعدد احادیث موجود ہے اس کا مقصد تو عورت کو اس مقدس سفر میں بھی  تکالیف سے بچانا اور اس کو محفوظ رکھنا ہے  یہ تو عین فطری   طریقہ ہےجو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بتایا ہے  ظاہر ہے انسان   کسی ایسی شے کی حفاظت جب ہی  کرتاہےجب اس  چیز کی قدر و منزلت ہوتی ہے  غیر ضروری اور بے قدر چیزوں کی حفاظت تو عقل و شعور سے عاری شخص ہی کرے گا ۔جاوید چوہدری اس بات کو بھی  بڑی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ مغرب میں عورت  نیم عریاں گھومتی پھرتی ہیں۔

  آج مغرب یا اس  کےکلچر پر رال ٹپکانے والےلوگ عورتوں  کو جس آزادی کا جھانسہ دے رہے ہیں۔ کیا کوئی شخص اپنے  گھر میں ایسے انڈے لے کر آئے گا  جس کو دکاندار نے ایک خوبصورت پیالے میں توڑ کر رکھا ہو اور آپ سے یہ کہے کہ صاحب یہ انڈے خریدیں  یہ خوبصور ت پیالے میں ہیں اور آپ کی سہولت کے لیے میں نے پہلے ہی ان انڈوں  کو تو ڑ کر  پیالے میں رکھا ہوا ہے اگر جاوید چوہدری صاحب  پھلوں کے شوقین ہوں اوران کو کوئی دوکاندار  ایسے کیلے  دے جو چھلکوں کےبغیر ہوں اور وہ ان سے یہ کہے کہ آپ کو تو ان کیلوں کو چھلکے اتارکر ہی کھا نا ہے اس لیے میں نے پہلے ہی چھلکے اتار دئیے ہیں کیا جاوید صاحب وہ کیلے گھر لائیں گے کھانے کےلیے؟یہ بات شاید جاوید چوہدری اور ان کے قیبلے والوں کو سمجھ نہ آئے ۔ مغرب نے آج عورت کو بے لباس کردیا ہے  مغرب عورت کو ٹشو پیپر سے زیادہ  اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے ۔مغرب  کا خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے   وہاں تو  عورت نہ  بیوی ہے   نہ ماں ہے نہ بہن ہے  نہ  خالہ ہے نہ پھوپھی ہے  بس  اس کی حیثیت اشیائے جنس کی ہے۔

مغرب عورت کی جس آزادی کی علمبردار ہے  ، جب اس کی جوانی رخصت ہوجاتی ہے اور اس  کے ہاتھ پیروں سے جب  جان نکل جاتی ہے تو  اس کے سارے خواب  چکنا چور ہوجاتے ہیں وہ تو بے رحم مادہ  پرست معاشرے میں بے آسرا  رہ جا  تی ہے نہ  اس کے پاس شوہر کا مضبوط سائبان  ہوتا  ہے  نہ اس کے پاس اس اولادیں  ہوتی ہیں جو اس کے منہ میں ایک لقمہ ہی ڈال دیں   اس کا ٹھکانہ  اولڈ بوائے ہوم ہوتاہے ۔جاوید چوہدری صحافی ہیں مگر انہوں نے  پاکستانی معاشرے کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ  یہاں ہر گلی و کوچے میں یہی سب کچھ ہورہا ہے ۔ انہیں اپنے کسی کالم میں دیانتداری سے پاکستان یا  مسلمان ملکوں میں ہونے والے جنسی جرائم کے اعداد و شمار   پیش کرنا  چاہیے  او ر اس  کو تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ مغربی  ممالک کے  اعداد و شمار سے موازنہ کرنا چاہئیے ۔بقول جاوید چوہدری مسلمانوں کا   مائینڈ سیٹ   بھی مغربی  قوموں کے مائینڈ سیٹ کے مقابلے میں خراب ہے  گویا ساری خرابی کی جڑ جاوید چوہدری کے نزدیک  مسلمانوں کا مائینڈ سیٹ ہے  ۔ شاید  جاوید چوہدری صاحب نے مسلمانوں کے مائینڈ سیٹ کی تاریخ نہیں پڑھی،  ذرا دیانتداری سے  یہ بھی اپنے کالموں میں لکھیں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں  مسلمانوں نے   کتنے عظیم کارنامے انجام دئیے اور مغربی دانشوروں نے کتنے انجام دئیے ہیں  ؟ بہت پرانی بات نہیں بلکہ  چند دن پہلے کی مثال آپ کے سامنے ہے  آپ کے پڑوس میں  افغانستان  کے طالبان ہیں جن پر تبصرہ بھیجتے ہوئے آ پ تھکتے نہیں    اڑتالیس ممالک کی  بہترین فوجوں کو بیس سال تک  ناک سے چنے چبوا کر میدان سے بھاگنے پر  مجبور کردیا   کیا یہ کار نامہ کوئی خراب مائینڈ سیٹ رکھنے والی قوم ایسا  کرسکتی ہے ؟دنیا بھر کے تجزیہ نگار بیس سال تک  کیا تجزیہ کرتے ہے  ان سب کا نتیجہ سوائے جھک مارنے کے اور کیا نکلا ؟  میدان جنگ کے شہسواروں نے تو اڑتالیس ممالک کے بہترین سفارتکاروں  کو  سفارتی  جنگ میں بھی  عبرتناک  شکست  سے دوچار کردیا ۔  یہ جو واقعات  بھی پاکستان  میں آج کل ہورہے ہیں یہ  مغربی  سڑے ہوئے مائنڈ سیٹ کی بدبودار  فکر ہے جو انہوں نے  ہم پر اپنے دلّالوں کے زریعے مسلّط کی ہے۔

 آج اسی کا  تعفّن ہے جو  کبھی  مینار پاکستان سے برآمد ہوتاہے ، کبھی معصوم زینب کے قاتل عمران علی ،کبھی ظاہر جعفر کی صورت   اورکبھی لاہور کی سڑکوں سے برآمد ہوتاہے۔ جاوید چوہدری اور کتنی وفاداری مغرب سے نبھائیں گے   اگر مسلمانوں کا مائینڈ سیٹ خراب ہوتاتو گیارہ دن کی قید کاٹنے کے بعد یوون ریڈلے   مریم ریڈلے نہ بنتی  اور  مغرب کا مائینڈ سیٹ درست ہوتا تو  ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر وحشیانہ تشدّد کرکے اس کو جیل میں نہ رکھتے۔

جاوید چوہدری کو اس بات کا بھی قلق ہے کہ  ملالہ یوسف زئی  نوبل انعام یافتہ ہے  مگر وہ پھر  بھی پاکستان نہیں آسکتی   آج یورپ نے اس کو نوبل انعام بھی دے دیا ہے اور اس کو اعلٰی تعلیم بھی دے رہاہے  اس کو سیکورٹی بھی فراہم کررہا ہے ۔ پہلا سوال یہ کہ نوبل انعام یورپ کیوں دیتاہے  ؟ ملالہ نے کوئی سائنسی خدمت انجام دی ہے، کو ئی ایسی کتاب لکھ ڈالی ہےجو  تمام دنیا ہے لیے بڑی مفید ہے دنیا میں امن کے لیے کوئی گراں قدر خدمت انجام دی ہے ؟ ہاں ایک  کام کیا ہے   وہ یہ کہ اس نے پاکستان سے بھاگ کر  یورپ میں پناہ لی ہے اور وہاں سے اسلام  پر حملہ کیا ہے  متعصّب یور پ  نے اس بات سے خوش ہوکرملالہ یوسف زئی کو انعام کے طور پر نوبل عطا کیاہے  ۔ لیکن اس طرح نوبل انعام  کی قدر بھی یورپ نے صفر کردی ہے اور  اس  انعام کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے قابل  بھی  بنا دیا ہے۔