حیاء اور ایمان

“مس آج حاضری کم ہے کچھ سلیبس سے ہٹ کے ڈسکس  نہ کرلیں آج کوئی بھی پڑھنے کے موڈ میں نہیں ” میں مس کے حاضری لینے کے دوران ایک دم بول اٹھی سب حیران ہوگئے کہ آج لبنی کو کیا ہوگیا ہے مس طاہرہ کوحاضری کے دوران ہی ٹوک دیا۔ میں کچھ سال پہلے کی بات ہے اس وقت بی ایڈ کر رہی تھی اور کالج میں بہت کم طالب علم آئے تھے اور ایک دم مجھے خیال آیا   کہ مس طاہرہ سے کچھ حیاء کے متعلق پوچھوں مس طاہرہ ہمیں اسلامیات پڑھاتی تھیں۔

حاضری لینے کے بعد مسکراتے ہوئے بولیں  “جی آج میرا بھی یہی موڈ تھا  کسی ایسے  عنوان پر ڈسکس کریں جو اس کتاب سے نہ ہو  اچھا آپ بتائیں کس عنوان پر بات کریں؟”

 ” حیاء اورایمان پر بات کریں حیاء کیا ہے کیا یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں؟”  میں نے پوچھا جی بلکل سب سے پہلے تو میں یہ بتاؤں حیاء ہے کیا؟ حیاء اس احساس کا نام ہے  کہ کوئی بھی برائی، کوئی بھی غلط کام کرنے لگیں  تو رک جائیں یہ احساس  ہونا کہ اللہ پاک دیکھ رہیں ہیں ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے اب اس میں کوئی کام بھی ہوسکتا ہے چوری قتل جھوٹ عورت کا حجاب نہ پہننا یا مرد کی نظریں نیچی نہ ہونا یا برے اخلاق میں پڑھنا ایک حدیث میں ہے “سیدنا ابو مسعود بدری رضى الله تعالي عنه سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” پہلی نبوت کے کلام اے لوگوں کو آخری بات یہ ملی ہے جب انسان حیاء نہ کرے تو جو چاہے کرتا پھرے”سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی684

  اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے حیاء انسان کو نا فرمانی سے روکتی ہے ” انسان کے اندر جب حیاء ہوتی ہے تو خود بخود وہ برائی سے رک جاتا ہے، دیکھو بیٹا  حیاء ہر مرد مومن  اور مسلمان عورت کے دل میں ہوتی ہے مگر جب اپنی آنکھ سے اپنے ہاتھ سے کان سے برائی سنتا کرتا دیکھتا ہے تو وہ حیاء ختم ہونے لگتی ہے ایمان ختم ہونے لگتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” حیاء اور ایمان ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے”۔(مشكوة المصابيح)  یعنی حیاء نیکی کا راستہ  ہے” حیاء جب انسان میں ہوگی تو نیکی کی طرف قدم خود بخود اٹھتے ہیں “مس ہمیں کوئی واقعہ  بھی سنائیں یا کوئی مثال بھی دیں جس سے  شرم و حیاء کا تصور اور  واضح ہو جائے” شاکرہ بولی۔

“حضرت آدم حضرت حواء کا جنت سے نکالے جانے کا واقعہ کس کس کو یاد ہے وہ ہاتھ اٹھائے” مس بولیں فائزہ نے ہاتھ اٹھایا مس نے کہا ” ہاں جی آپ بتائیں”۔” حضرت آدم اور حواء کو اللہ تعالی نے جب جنت میں جگہ دی تو اللہ تعالی نے ان  سے فرمایا ”  فلاں درخت کے پاس مت جانا ورنہ ظالموں سے ہو جاؤ گے “بھر کچھ دن بعد شیطان نے ان کو ورغلایا اور درخت کے پھل کو کھانے پہ اکسایا اور حضرت آدم و حواء نے وہ پھل کھا لیا اس سے ان کے ستر کھل گئے تو وہ پتوں  سے اپنے بدن ڈھانپنے لگے۔

 “چلیں آپ بیٹھ جائیں” فائزہ ابھی واقعہ سنارہی تھی کہ مس نے فائزہ کو بیٹھنے کے لئے کہا” جی اس واقعہ سے ہمیں پتا چلا کہ اللہ پاک نے ہماری فطرت میں شرم و حیا ء ودیعت کردی ہے اسی شرم و حیاء کی وجہ سے وہ اپنے بدن کو ڈھانپنے لگے “ایک  مثال ہے جب بچہ کو کہا جاتا ہے کہ فلاں کام نہ کرنا اور وہ تنہائی میں اسے موقع ملتا ہے تو وہ ایک دم سوچتا ہے کہ میرے امی ابو نے اس کام کے لئے روکا تھا یہ احساس  اصل حیاء ہے۔

 دیکھیں اس کو اس مثال سے بھی سمجھتے ہیں االلہ پاک نے لڑکیوں کو پردہ کا حکم دیا اور مردوں کو نظریں نیچے رکھنے کو کہا ہے یہ لڑکی پہ ہے وہ پردہ کرے نہ کرے لیکن عورت کی فطرت میں حیاء مردوں کے مقابلے میں زیادہ رکھی ہے عورت حجاب پہنتی ہے اس کو زیادہ سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور خود پردہ کرنے لگتی ہیں اور یہ سب شرم و حیاء ہےاس کا ضمیر  کردار ہی عورتوں کو پردہ، حجاب پر مائل کرتا ہے پھر مرد کے دل میں بھی اللہ پاک عورت کی عزت پیدا کرتے اور ان کی نگاہیں نیچی رہتیں یہ سب ہم انسان کے اللہ پر یقین و ایمان کے  بدولت ہی ہوتا  بےشک شیطان ہمیں ورگلاتا ہے کچھ لمحوں کے لئے بھٹک بھی جاتے اور پھر ایک دم شرمندگی ہوتی اور مسلمان مرد و عورت توبہ استغفار کرتے ہیں اور  اللہ کے آگے جھکتے ہیں جیسے حضرت آدم حواء کو دعا سکھائی تھی انھوں نے شرمندہ ہو کر توبہ کی اور اللہ نے ان کو معاف کردیا اور اللہ پاک سب کی توبہ قبول کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں نیک عمل کرنے والا اچھے اخلاق سے پیش آنے والا بنائے آمین۔

مس ابھی لیکچر دے رہیں تھیں کہ گھنٹہ بج گیا اور اسلامیات کا پیریڈ ختم ہوگیا مس  جانے کے لئے اٹھیں سب نے انھیں تہہ دل سے شکریہ کہا  اگلی کلاس کا وقت ہو چلا تھا آج کی کلاس مجھے کبھی نہیں بھولے گی کسی نے بھی اتنا واضح انداز میں نہیں سمجھایا تھا جیسا کہ مس  نے ہمیں حیاء اور ایمان پر سمجھا دیا اور اب میں گھر والوں کو بھی آج کی کلاس کے بارے میں بتاؤں گی۔