ایثار

آج ماہم کا بی اے کا رزلٹ آ یا تھا وہ شاندار نمبروں سے پاس ہوگئی تھی گھر بھرمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ماہم کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا ۔ آگے  ماسٹرز کرنے کا ارادہ تھا آنکھوں میں مستقبل  کے خواب سجائے پورے گھر میں چہکتی پھر رہی تھی۔

          ارے اپنے والد کو تو فون کرکے اطلاع دے دو وہ آ ج صبح ہی تمھارے رزلٹ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ جی جی امی ابھی کرتی ہوں والد کی خوشی کا سوچ کر ہی اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی بابا تو یہ خبر سن کر پی اچھل پڑینگے وہ تصور میں انکی خوشی کو محسوس کرکے فون ملانے لگی۔

ہیلو! بیٹا ماہم کیا بات ہے؟ کیسے فون کیا؟ کچھ چاہیے کیا ؟ارے نہیں بابا آ پکو ایک خوشخبری سنانی ہے آپکی بیٹی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوگئی ہے۔ بابا بس جلدی سے آ پ آ جائیں اس وقت آ پکی کمی بہت محسوس ہورہی ہے۔  ارے میرا بیٹا واہ ماشاء اللہ بہت بہت مبارک ہو جب بابا خوش ہوتے تو اسے بیٹا کہتے۔ بس چھٹی میں دوگھنٹے رہ گئے ہیں بس تم انتظار کرو میں پہنچتا ہوں۔

                 یہ ایک لوئر مڈل کلاس فیملی تھی ۔گھر میں کل پانچ افراد تھے امی ابو ماہا اور اسکی دو چھوٹی بہنیں والد کسی پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ اس بڑھتی مہنگائی میں معمولی تنخواہ اور اوور ٹائم ملا کر بس گزر بسر ہوجاتی تھی۔  اظہر صاحب اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے آور انکی کوشش ہوتی کہ بچیوں کو کسی قسم کی کم مائیگی کا احساس نہ ہو وہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے انکی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے کچھ زرینہ بیگم بھی کفایت شعار واقع ہوئی تھیں یوں گزر بسر میں کبھی تنگی محسوس نہ ہوئی۔

ماہم خوشی خوشی والد کا انتظار کرہی تھی اسے نہیں پتا تھا کہ اسکی خوشی غم میں بدلنے والی ہے۔اچانک فون کی بیل بج اٹھی ۔ہیلو میں اظہر صاحب کا کولیگ بات کررہا ہوں اظہر صاحب کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ ایکسپائر ہوچکے ہیں۔

             ایک  قیامت تھی جو اس گھرانے پر ٹوٹ پڑی تھی ماہم نے بڑے حوصلے اور صبر کے ساتھ اپنی والدہ اور چھوٹی بہنوں کو سنبھالا وہ ایکدم سے جیسے سمجھدار اور ذمے دار ہوگئی۔

وقت کا کام تو گزرنا ہے سو گزرتارہا گھر میں جو جمع جتھا تھا وہ آ ہستہ آ ہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ مصیبت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ سو ایک ایک کرکے رشتے دار بھی ساتھ چھوڑتے گئے۔

         ماہم روز گھر سے صبح نوکری کی تلاش میں نکل جاتی بالآخر ایک ہفتے کی خواری کے بعد اسے ایک پرائیوٹ فرم میں کمپیوٹر آ پریٹر کی جاب مل گئی اور شام میں واپسی پر کچھ ٹیوشنز بھی کرلیں زرینہ بیگم نے بھی گھر میں سلائی کا کام شروع کردیا ماہم سارا دن کی تھکی ہاری ٹریفک کے مسائل سے نمٹتی سارا دن بسوں کا دھواں پھانک کر رات نو بجے تھکن سے چور گھر میں داخل ہوتی اور کھانا زہر مار کرکے بستر پر پڑ جاتی اور اگلے دن کیلئے کمر ہمت کس لیتی وہ بہت سنجیدہ ہوگئی تھی۔ چھوٹی بہنیں بھی سہمی سہمی رہتیں والدہ کے چہرے کی جھریوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

        کبھی کبھی وہ اللہ سے حالات کا شکوہ کر بیٹھتی کبھی کبھی اسکی شدت سے خواہش ہوتی کہ کاش ایک بھائی ہی ہوتا تو اسے یوں روزگار کیلئے گھر سے نہ نکلنا پڑتا اور نہ مردوں کی ہوس بھری نظروں کا سامنا  کرنا پڑتا روز یہی سوچتے سوچتے وہ نیند کی آغوش میں چلی جاتی۔

         کہتے ہیں نہ کہ خوشی  کے لمحے تیزی سے گزر جاتے ہیں اورمشکل وقت  طویل ہوجاتا ہے کاٹے نہیں کٹتا۔ اس دوران ماہم کے کچھ اچھے رشتے بھی آ ئے مگر اس نے ہرایک کے سامنے یہ شرط رکھی کی وہ شادی کے بعد  بھی جاب کرے گی تاکہ ماں اور بہنوں کی کفالت کرسکے مگر جو بھی یہ شرط سنتا واپس پلٹ کر نہ آ تا وقت گزرتا رہا اور دونوں چھوٹی بہنیں شادی کے قابل ہوگئیں ۔اچھے رشتے آنے پر ماہم نے دونوں بہنوں کو رخصت کردیا۔

            اب زرینہ بیگم چاہتی تھیں کہ انکی آ نکھیں بند ہونے سے پہلے ماہم بھی اپنے گھر کی ہوجائے۔اسکی عمر پینتیس سال ہوچکی تھی رشتے تو ابھی بھی آتے تھے مگر عمر کا سن کر کوئی جواب نہیں دیتے تھے حالانکہ ماہم ابھی بھی کافی پرکشش تھی۔

           ماہم شادی سے انکاری تھی مگر ماں کادل اسکے لئے دکھتا تھا اور وہ اپنی کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ایک دن زرینہ بیگم کی کزن ایک رشتہ لیکر آ ئیں لڑکے کی عمر اڑتیس سال تھی بینک میں مینیجر تھا پہلی بیوی وفات پاچکی تھی اور چھ سال کا ایک بیٹا تھا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا صرف ایک بہن تھیں جو ملک سے باہر تھیں وہ کسی ایسی خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے جو انکے بیٹے کو ماں کا پیار دے سکے اور انکے لئے ایک اچھی رفیقہ حیات ثابت ہو  زرینہ بیگم کو یہ رشتہ بہت مناسب لگا ماہم کی مرضی معلوم کی تو اس نے شرط رکھی کہ زرینہ بیگم بھی اسکے ساتھ ہی رہینگی ۔سلمان  نے خوشی خوشی یا شرط مان لی اور چند ہی دنوں بعد نہایت سادگی کے ساتھ ماہم  نے سلمان کی سونی زندگی اور سونے آ نگن کو پھر سے آ باد کردیا۔

سلمان ایک بہت اچھا اور خیال رکھنے والا شوہر ثابت ہوا اور ماہم نے بھی سلمان کو مایوس نہیں کیا اور انکے بیٹے کو دل سے اپنایا اور اسکی بہترین تر بیت کی

زرینہ بیگم اپنی تینوں بیٹیوں کو اپنے گھروں میں خوش وخرم دیکھ کر  اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی سچ ہے اللہ کسی کے کیے گئے بے لوث ایثار  کو رد نہیں کرتا آج اللہ نے ماہم کو اسکے ایثار کا بھر پور بدلہ دے دیا تھا۔