ہم ہر سوال کے جوابدہ ضرور ہوں گے

ہر تھوڑے عرصے بعد معاشرے میں کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک شور برپا ہو جاتا ہے اور ہم تین حصوں میں بٹ جاتے ہیں، ایک اُس واقعے کی مخالفت کرتا ہے، دوسرا اس کی پوری طرح حمایت کرتا ہے اور تیسرا جسے اپنے اردگرد بدلتے منظر سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا، اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس طرف ہے، اسے کیا کرنا ہے۔

 کچھ دنوں بعد یہ تمام آوازیں خاموش ہو جاتی ہیں۔ سب واپس اپنی روز مرہ کی زندگی میں پلٹ جاتے ہیں۔ پھر کچھ ہوتا ہے اور وہی سائیکل دوبارا شروع ہو جاتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب اس چیز کے عادی ہوگئے ہیں، جیسے ہی کوئی حادثہ پیش آئے، تھوڑا چیخیں چلائیں اور پھر بس خاموشی!

 ایک روایت سی بن گئی ہے، جیسے ہی کچھ ہوا، فوراً سب ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے لگے، لیکن کسی نے بھی اُن تین انگلیوں کو نہیں دیکھا جو اس کے اپنے وجود پر اٹھ رہی تھیں۔ ہماری حالت بالکل اس شہری کی طرح ہوگئی ہے جو سڑک پر اپنی آٹومیٹک گاڑی بہت تیز چلائے اور اسی تیزی میں اپنی آگے والی گاڑی کو مار دے اور جب اسے روک کر پوچھا جائے کہ بھئی، اتنی کیا جلدی؟ جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو کیوں آئے سڑک پر؟ کیا تم نے اس کے ساتھ ملنے والی کتاب نہیں پڑھی؟ سیٹ بیلٹ کیوں نہیں لگائی؟ سامنے سے جواب آتا، میں جانتا ہوں گاڑی کیسے چلانی ہے، مجھے کوئی ضرروت نہیں کتاب پڑھنے کی، اور اس فرد نے اپنی گاڑی میری گاڑی کے آگے رکھی ہی کیوں؟ اور بس شروع بحث برائے بحث! بنانے والا جانتا تھا کہ گاڑی کے ساتھ کتاب بہت ضروری ہے، اسے چلانے والے فرد کے لیے اس میں موجود بتائی گئی تمام احتیاطیں بہت اہم ہیں۔

خدا نے زمین پر ایسی مخلوق پیدا کی جس کے پاس اختیار ہے۔ جو خودمختار ہے۔ ایسا کیسے ممکن تھا کہ اس کے ساتھ کوئی کتاب نہ ہوتی۔ اسے کتاب بھی ملی، لیکن اس نے کتاب کو تہ در تہ غلاف میں لپیٹ کر اپنے گھر کی سب سے اونچی جگہ پر رکھ دیا۔ اور یہ گمان کر بیٹھا کہ اسے تو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ کہ وہ جانتا ہے اس دنیا میں کس طرح سے جینا ہے، کیسے رہنا ہے۔ جیسے ہی وہ کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے تو اس کی نظر میں ہر چیز قصوروار ہوتی ہے سوائے اس کے اپنی ذات کے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جو کتاب ہمیں دی، جو میرے اور آپ کے لیے ہے۔ جو سرچشمہ خیر ہے۔ ہم کیسے اسے فراموش کر بیٹھے؟ اللّٰہ تعالیٰ تو اسی کتاب میں فرماتے ہیں ” ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں” ایسا کیسے ممکن ہے کہ جس معاشرے میں خوف خدا ہو، جس کی اساس لا الہٰ الاللہ ہو، جس کے انسانوں کے پاس قرآن ہو، جو اسے سمجھتے ہوں، اس کے سانچے میں خود کو ڈھالتے ہوں وہاں ایسے واقعات رونما ہوں؟

جب بھی معاشرے میں کوئی ضمیر جھنجھلا دینے والا واقعہ پیش آیا کیا ہم میں سے ہر فرد نے اپنے سینے میں دھڑکتے دل کو ٹٹولا؟ کہ کہیں ہم سے بھی تو کوئی خیانت نہیں ہوئی؟ کیا ہم بھی اُن میں شامل تو نہیں جنھوں نے کتاب الٰہی کو اپنے گھروں میں کسی اونچی جگہ پر رکھا ہے؟ ہر فرد اپنے دل میں جھانکے، اپنے ضمیر کو کھنگال کر دیکھے، ہمارے پاس جوابات موجود ہیں۔ کم از کم ہم خود کو بہتر بنا سکتے ہیں، اپنے گھر کی چار دیواری میں تو بہتری کا بیچ بو سکتے ہیں۔

 تو کیا تب بھی معاشرہ بہتر نہیں ہوگا؟ ذرا ہم کتاب کی طرف رجوع تو کرکے دیکھیں، کیا تب بھی راستہ سوجھائی نا دے گا؟ سوال کریں خود سے، اس واقعے پر پچھلی سائیکل کو ہی نا دھرائیں، اب بھی نہیں سوچیں گے تو کب سوچیں گے۔ یہ جو شور ہے نا، کچھ وقت بعد  تھم جائے گا۔ لیکن ہماری خود کو بدلنے کی کوشش نہیں رکنی چاہیے۔ ورنہ یقین کریں ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا، نہ دنیا اور نہ آخرت! لیکن ہم ہر سوال کے جوابدہ ضرور ہوں گے۔