عائشہ اکرم کے ساتھ بدسلوکی کا ذمے دار کون ؟

          آج جس موضوع پر بات کرنی ہے اس کو واضح کرنے کے لیے ہم آپ کے سامنے دو حادثات کی مثالیں رکھتے ہیں اور پھر اپنی بات کا آغازکریں گے۔ عام طور سے سڑکوں پر حادثات ہوتے رہتے ہیں اور ان حادثات میں لوگ اپنی جان سے بھی جاتے ہیں۔ اب فرض کیجیے کہ ایک موٹر سائیکل سوار بہت محتاط ہوکر موٹر سائیکل  چلا رہا ہے۔ اس کی رفتار بھی مناسب ہے۔ وہ ٹریفک کے اصولوں کا بھی خیال رکھ رہا ہے اور اپنے آس پاس سے گزرنے والے گاڑیوں سے بھی بچ رہا ہے۔ دورانِ سفر ایک ٹریفک سگنل آتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار کی جانب کا سگنل کھلا ہوا ہے اور وہ سگنل کراس کررہا ہے کہ اس دوران اچانک بائیں جانب سے ایک تیز رفتار کار سنگل توڑتی ہوئی آتی ہے اور موٹر سائیکل سوار کو زور دار طریقے سے ٹکر مارتی ہے، موٹر سائیکل سوار اس حادثے کے نتیجے میں اس کی تانگیں ٹوٹ جاتی ہیں اور وہ معذوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ ایک حادثے کی کیفیت ہم نے بیان کی ہے۔ اب دوسرے حادثے کی کیفیت دیکھتے ہیں۔

          سڑک پر ٹریفک رواں دواں ہے۔ گاڑیاں تیز رفتاری سے گزر رہی ہیں ، ٹریفک کے اس اژدحام میں ایک موٹر سائیکل سوار انتہائی لاپروائی سے موٹر سائیکل کو چلانے کی بجائے اڑاتا ہوا چلا جارہا ہے۔ وہ اپنی موٹر سائیکل کو لہراتے ہوئے گاڑیوں کے درمیان سے نکل رہا ہے، کبھی وہ سڑ ک کے دائیں جانب ہے تو کبھی بائیں جانب، کبھی وہ ایک کار کو اوور ٹیک کرتاہے کبھی کسی دوسری گاڑی کو۔دورانِ سفر ایک سگنل آتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار کی جانب کا سگنل بند ہے۔ لیکن وہ اس کو خاطر میں نہیں لاتا اور سگنل توڑتے ہوئے نکلنے کی کوشش کرتاہے، اس کوشش کے دوران وہ ایک کار کی زد میں آجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنی  ٹانگیں تڑوا بیٹھتا ہے اور معذری کا شکار ہوجاتا ہے۔

قارئین کرام ! یہ دو فرضی حادثات ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں یہ دونوں کیفیات پائی جاتی ہیں۔ اب تھوڑا سا سوچ کر یہ بتائیے کہ کیا دونوں صورتوں میں کار والا ہی حادثے کا ذمے دار ہے؟کہ دونوں صورتوں میں موٹر سائیکل سوار بالکل بے قصور ہے اورا س پر حادثے کی کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی؟ دونوں حادثات کو دیکھنے  یا اس کی مکمل روداد سننے کے بعد ہر باشعور فرد یہی کہے گا کہ پہلے حادثے میں موٹر سائیکل سوار کی کوئی غلطی نہیں تھی ، وہ بالکل ٹھیک جارہا تھا اور سارا قصور کار والے کا ہے۔ جب کہ دوسرے حادثے کے بارے میں ہر فرد یہی کہے گا کہ اگر چہ یہ فرد کار کا نشانہ بنا لیکن اس میں سارا قصور اس کا ہی تھا، نہ یہ غیر ذمے داری کرتا، نہ سگنل توڑتا اور نہ ہی حادثے کا شکار ہوتا۔

          یہی صورت حال اس وقت عائشہ اکرم والے واقعے اور دیگر واقعات کی ہے۔ مینار پاکستان پر ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ ہونے والا واقعہ بہت افسوس ناک ہے۔ اس کے ذمے داران کو سزا ملنی چاہیے۔ لیکن میڈیا پر یہ واقعہ جس طرح بیان کیا جارہا ہے، یہ تصویر کا حقیقی رخ نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو اس کی ذمے داری بھی عائشہ اکرم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ہمارے معلومات اور اطلاعات کے مطابق موصوفہ تین دن تک سوشل میڈیا پر یہ مہم چلاتی رہیں کہ میں 14 اگست کو اقبال پارک آؤں گی اور جو مجھ سے ملنا اور سیلفی بنوانا چاہے وہ 14 اگست کو وہاں آجائے۔ اس کے بعد 14 اگست کو محترمہ اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں آتی ہیں اوربھرے مجمعے میں اپنے (نامحرم) دوست کے ساتھ ہیجان انگیز ویڈیوزاور سیلفیاں بنواتی ہیں۔ اس کے بعد ان کے چاہنے والوں(فالورز) کا نمبر آتا ہے جومحترمہ ہی کی دعوت پر وہاں جمع ہوئے تھے۔تصاویر اور ویڈیو بنوانے کے خواہش مندوں کی تعداد اور خواہشات بہت زیادہ تھیں اس لیے معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور پھروہ سارا افسوس ناک واقعہ پیش آتا ہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ واقعہ 14 اگست کو پیش آتا ہے۔ 15 اگست کو وہ معمول کے مطابق اپنے تصاویر اپ لوڈ کرتی ہیں۔ 16 اگست کو بھی ان کو یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی اور نازیبا سلوک ہوا ہے۔ جب دو دن تک ان کو ٹک ٹاک پر کوئی غیر معمولی پذیرائی نہیں ملتی تو پھر ان کو خیال ( یا ان کے دوست) کو خیال آتا ہے کہ اب سستی شہرت، لائیکس اور فالورز کو بڑھانے کا یہی طریقہ ہے کہ مظلوم بن کر ہمدریاں سمیٹی جائیں اور اس میں وہ کامیاب ہوجاتی ہیں۔(یہاں ایک اہم بات یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس مضمون کو لکھنے سے پہلے ہم نے خصوصی طور پر ٹک ٹاک کی ایپ انسٹال کرکے محترمہ کے اکاؤنٹ کا جائزہ لیا تو ایک اور دل چسپ بات سامنے آئی۔ جب سوشل میڈیا پر اس واقعے کے دوسرے پہلو سامنے آنے لگے اور یہ بات کھلنے لگی کہ واقعے کی ذمے داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے اور ان کی شہرت اسی طرح کی ہیجان انگیز ویڈیوز کے باعث ہے ، توانہوں نے اپنے اکاؤنٹ سے وہ ساری ویڈیوز ہٹا دی ہیں۔ اب ان کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ میں 19 اگست کی رات تک صرف 6 ویڈیوز موجود تھیں اور وہ بھی 14 اگست کے واقعے کے بعد کی۔) ان کا معاملہ اس موٹر سائیکل سوار کی طرح ہے جو کہ سگنل توڑتے ہوئے حادثے کا شکار ہوجائے اور اس کے بعد یہ چاہے کہ مجھے کچھ نہ کہا جائے بلکہ سارا قصور اس کار والے کا ہے جس نے مجھے ٹکر ماری ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ بالکل ہی پاک صاف اور فرشتوں کا معاشرہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں خرابیاں بھی ہیں اور خواتین کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ زیادتیاں بھی ہوتی ہیں ۔لیکن دیسی لبرلز اور  میرا جسم میری مرضی مافیااس واقعے کو دیگر واقعات کی طرح پیش کررہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ معاشرے میں عورت کی عزت محفوظ نہیں ہے، مرد عزتوں کے لٹیرے ہیں اور عورت چاہے کچھ بھی کرے،اس کو کچھ نہ کہا جائے۔

          یہاں ہم ہرگزہرگز ان لوگوں کی حمایت نہیں کررہے جنہوں نے عائشہ اکرم کے ساتھ بدسلوکی اور نازیبا سلوک کیا۔ ان لوگوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی فرد اس طرح کی حرکت نہ کرے۔ لیکن خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی عزت و آبرو کا خیال رکھیں اور اسلام نے ایک عورت کے لیے جو حدود و قیود بنائی ہیں ان کا خیال رکھیں۔ ان پابندیوں سے مرد بھی مبرا نہیں ہیں۔ اسلام نے ان کے لیے بھی جن حدود کا اعلان کیا ہے مردوں کو بھی ان کی پابندی کرنی چاہیے۔ یاد رکھیے حدود و قیود کی پابندی صرف عورت کے لیے نہیں ہے۔ جب مرد و عورت اپنی اپنی حدود کا خیا ل رکھیں گے تو ایسے حادثات کے رونما ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...