گھر نہیں مکان

کسی بھی ادارے یا محکمے کی ترقی کا انحصار اس کے سربراہ پر ہوتا ہے۔سربراہ کے نا حق فیصلے ادارے کے لیے جہاں ترقی کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں وہاں ایک ایماندار اور قابل سر براہ ادارے کی منزلت کو بڑھا سکتا ہے مگر کیا یہ ممکن ہے کہ ادارے کو چلانے کے لیے سربراہ تو موجود ہو مگر اس کو اختیار نہ دیئے جائیں اور ساتھ یہ مطالبہ ہو کہ اداراہ کامیابی کی سیڑھی بھی چڑھے۔

اس بارے میں ہر ذی شعور یہی رائے دے گا کہ یہ ہر گز ممکن نہیں کہ بنا اختیارات کے اداراہ چلا سکے۔ اگر یہ بات عقل کو چھوتی ہے پھر ہمیں یہ” گھریلو تشدد تدراک اور تحفظ” نامی یہ بل کیوں قابل مذمت معلوم نہیں ہوتا۔ گھر ایک وہ چار دیواری ہے جو معاشرے کے لیے بنیادی اکائی ہے۔اس بل کے مطابق گھر کا سربراہ نہ تو باپ کی حیثیت سے کچھ اصول متعین کرکے اولاد کو ان کی پیروی کا پابند کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ شوہر کی حیثیت سے اپنی عورت کے لئے کچھ حدود متعین کرسکتا ہے۔ بظاہر خوشنما اور حقوق کا پرچار کرنے والا یہ بل آستین کا سانپ ہےاور اس کا عملی نمونہ مغربی معاشرہ ہے جہاں ہر شخص پیسہ کمانے کی مشین ہے مگر جذبات سے عاری ہے کیونکہ انھیں ایک دوسرے پر حق جتانے کا اختیار ہی حاصل نہیں۔ وہاں نہ شوہر کو غرض ہے کہ بیوی کو کیا مسائل درپیش ہیں نہ والدین اپنے بچوں کے معاملات سے با خبر ہیں نتیجتاً معاشرہ سر مہری کا شکار ہے اور اس کی دلیل وہاں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی تعداد ہے۔

     جبکہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے جہاں رشتوں کا احترام اور انکی حیثیت کو اولین ترجیح دی گئی ہے جہاں حقوق العباد کا درس ملتا ہے اور بے غرض اور بلا معاوضہ حسن سلوک کرنے کی رہنمائی جو معاشرے میں محبت اور قلبی سکون کو جنم دیتی ہے مگر یہ جب ہی ممکن ہے کہ گھر میں رہنے والے ہر فرد کو اس کا رتبہ اور مقام دیا جائے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مرد اپنے گھر کے لیے سڑک کی دھول چھانے مگر اپنے گھر والوں کے لیے ضوابط مقرر کرنے کا حق نہ رکھے ۔انکے فیصلے  کرنے کا اختیار نہ رکھے۔ ہاں اگر یہ ممکن ہے تو وہ گھر نہیں مکان ہوں گے جہاں نہ رشتوں کی پاسداری ہوگی نہ محبتوں کی آبیاری۔