اماں جی

اماں جی کے گھر بچیوں کی رونق لگی رہتی تھی۔اماں جی کے پاس بچیوں کے لئے کچھ کھانے کے لئے ہر وقت موجود ہوتا تھا۔ان کی پوتیاں اور نواسیاں بھی ہر وقت اماں جی کے چارپائی کے گرد محفل لگائی رکھتی تھیں۔ آج بھی لڑکیوں کے پاس سوال تھا اور اماں جی بیٹھی اپنی کمزور آنکھوں کو استعمال کرتے ہوئے سوئی دھاگے کے ساتھ کپڑے پر کڑاھی کر رہی تھی۔ان کے ہاتھ میں ایسا ہنر تھا کہ کپڑے میں جان پیدا کر دیتی تھی۔دیکھنے والا تعریف کیے بغیر جا نہیں سکتا۔بچیاں آپس میں کھسر کھسر کر رہی تھی۔اماں جی بولی۔

”میری بچیوں اپنی اماں سے کونسی بات چھپائی پھرتی ہو“ اماں جی کی بات پر بچیاں شرمانے لگ گئی۔گھر میں بچیوں کی آمد جا ری تھی اور جب تعداد زیادہ ہو جاتی تو اماں اپنا کام چھوڑ کر لڑکیوں کی طرف منہ کر لیتی۔ ایک شرماتے ہوئے بولی۔”بات سخت ہے مگر سب لڑکیاں اس خوف کا شکار ہے،اماں سب کہتی ہے دور بدل گیا ہے ماں بن کر انسان بوڑھا ہو جاتا ہے اولاد کی پیدائش لڑکی کم عمری میں بوڑھی لگنے لگ جاتی ہے اس کے سنہرے دور کا اختتام ہو جاتا اماں سب کا ماننا ہے کم خوبصورت کا کوئی نگاہ پسند نہیں کرتی،عورت کی چمک دمک تب تک ہی رہتی ہے جب تک وہ جوان اور اولاد کی ذمہ داری سے آزاد رہتی ہے،مرد عورت کو اولاد کی بیڑیوں میں جکڑ کر اس کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے،ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہے جو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ماں سننے میں خوبصورت اور بننے میں تکلیف دہ مرحلہ ہے،اماں آج کی بچیاں ڈرتی ہے کہتی ہے اکثر بیٹوں کی جگہ آقا پیدا ہو جاتے ہیں اور ماوں کی محنت ضائع ہو جاتی،ماں بننے کے بعد اولاد کی محبت عورت کو کمزور کر دیتی ہے ہم دیکھتے ہیں ماؤں کا حال وہ محبت میں مرجاتی ہیں اور اولاد ان کی زندگی کھا جاتی ہے۔

کیا ہم غلام ہیں؟ ملازمہ کیا ہماری زندگی خوف کی نذر ہو جائے گی یہ سب حالات ہمیں کمزور کریں گے “ بچی کہتے ہوئے خاموش ہو گئی۔اماں بھی دیکھ رہی تھی لڑکیوں کی آنکھوں میں خاموشی تھی اور اتنا سخت سوال سن کر وہ بھی حیران تھی کہ بچیوں کا ذہن کس طرف مڑ رہا ہے۔ان کو سوالوں کے جواب نہ ملے تو یہ آنے والی نسلوں کو خوف اور تباہی کی طرف لے جائے گی۔

اماں ہوا میں ہاتھ سیدھا گھوما کر بولی”چپ ہو جاو بےوقوفوں،غور سے سنو جس قوم کی لڑکیاں ماں بننے کے خوف میں مبتلا ہو جائے اس قوم کو توبہ کرنی چاہئے،جب رب کسی عورت کو ماں بناتا ہے تو اس کو علم سے نواز دیتا وہ ایسا علم ہوتا ہے جو کسی اسکول کالج سے نہیں ملتا اگر کسی عورت کے پاس ہزار ڈگریاں بھی ہو تو وہ تب بھی اس علم کو نہیں جان سکتی اگر وہ ماں نہیں ہے،دنیا کی نگاہوں سے دیکھو گی تو تم خوبصورتی کے معیار کو کبھی سمجھ نہیں پاوں گی جوانی سب پر آتی ہے مجھ پر بھی آئی تھی کیا میں سنبھال سکی مگر جو علم مجھے ماں بن کر ملا وہ مجھے کوئی ڈگری نہیں دے سکتی تھی ماؤں کے جملے اولاد کو بڑا انسان بنا دیتے ہیں ماؤں کے حوصلے ہی اولاد کو دنیا سے لڑنے کی طاقت دیتے ہیں جن قوموں  میں  ماؤں کی زبان سلامت ہے انہی قوموں کے جھنڈے بلند ہیں،مرد تو اولاد کی شکل میں عورت کو عزت دیتا ہے جو عورت مرد کو اولاد دے وہ اس دن کی خوشی بار بار دھراتا ہے اور اس کو یاد ایسے دلاتا جیسے کوئی احسان اس نے اپنے سر لے لیا ہو۔

اماں جی نے مزید کہا کہ بچیوں اولاد کو دیکھ کر عورت کے اندر محبت کا پھول کھل اٹھتا ہے افسوس ہے مجھے کہ تم لوگوں نے دوسروں کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے “اماں خاموش ہوئی عینک اتار کر صاف کرنے لگ گئی بچیاں خاموش اماں کو دیکھ رہی تھی۔

”رب نے ماؤں کو سارے مسئلوں کا حل بتا دیا ہے جب اولاد کو بولنا سیکھاتی ہے تو اس کے درد کو بھوک کو پیاس کو سب سمجھتی ہے اولاد گونگی بھی ہو تب بھی اور ساری زندگی اولاد اپنا درد ماں کے پاس لے کر آتا ہے سکون لے جاتا ہے ،پریشانی ہو حل لے آتا ہے،ماں کا کمرہ ایک کتب خانے کے مترادف ہے وہاں سے بڑے بڑے جاہل عالم بنا دیے جاتے ہیں،وہ عورت کیسے کمزور ہو سکتی ہے جس کی خدمت میں جنت ہو وہ عورت کیسے کمزور ہو سکتی ہے جس کے ایک جملے میں اتنی طاقت ہو کہ اگر اس کا بیٹا قوم کا سربراہ ہو مگر جب اپنی ماں کے پاس جائے تو اس کے قدموں میں بیٹھ جائے کیا یہ کوئی کمزور عورت کی نشانی ہے۔

اماں جی نے مزید پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ میری بچیوں ملازمہ دوسروں کے گھروں کا کام کرتی ہے اپنے گھر کا خاوند کا بچوں کا گھر والی کام کرتی ہے جو اپنے گھر کے کام کو برا سمجھے اس عورت کو اپنی سوچ پر ترس کھانا چاہئے،وہی عورتیں نوازی جاتی جو رشتوں کے تقدس کو سمجھ پاتی ہے کیونکہ عورت ایسی زنجیر ہے جو خاندان کو مضبوط کرتی ہے،تمہارا یہ خوف شیطان کی چال ہے جو ہماری نسلوں میں فتنہ بھرپا کرنا چاہتا ہے وہ جانتا ہے قوم کی مضبوطی ماوں کی مضبوطی ہے اور وہ ہماری آنے والوں نسلوں کو تباہ تب ہی کر سکتا ہے جب وہ ہماری عورتوں کی سوچ خراب کرے،اپنے خوف کو دور کروں اور اپنی ان باتوں سے توبہ کرو،اچھی امید ہی اچھے مستقبل کی ابتدا ہے، چلو شاباش“

اماں جی خاموش ہو گئی تو سب بچیوں کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔اماں جی نے ان کے چہرے کو دیکھا جو اپنے سوال کے جواب کو پا کر کتنی خوش تھی۔اماں جی نے پاس پڑے شاپر کو کھولا اور سب کو میٹھا بانٹنا شروع ہو گئی۔آج اماں جی اس دنیا میں نہیں رہی مگر وہ عورتیں جو اماں جی سے فیض حاصل کر کے گئی تھی وہ اپنے جوانوں کو ان کی قبر پر لاتی تھی اور اماں جی کو بتاتی تھی کہ ہمارے بچے اس قوم کی خدمت کرتے ہیں۔آپ کی باتوں اور دعاوں نے ہمیں تباہی سے بچا لیا۔