انسان کو زیب نہیں دیتا آگ کا رویہ رکھنا

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بنایا اور پھر مختلف قسم کی مخلوقات کو بنایا  اور سب سے آخر میں انسان کوتمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا کیا اور اپنی  روح پھونکی ہے ۔انسان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کی تخلیق کا آغازاللہ نے اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔ دوسری فضیلت یہ ہے کہ اسے مٹی سے پیدا کیامٹی میں  پختگی، بردباری، تخمل، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی صفات پائی جاتی ہیں۔  مٹی آگ سے بہتر اور نفع بخش ہے ۔ مٹی کی خاصیت  ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے چاہے وہ پانی ہو یا کوئی بھی سخت سے سخت چیز ہو وہ اپنے سینے کے اندر چھپا لیتی ہے۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنا کر اپنی تمام مخلوقات پر افضلیت دی کہ انسان ان خصوصیات کا حامل ہے جو کسی دوسری مخلوق  کوحاصل نہیں ہیں۔

انسان کی فطرت  میں ایک طرف فرشتوں کی پاکیزگی، اطاعت وفرمانبرداری اور اللہ سے محبت کا جذبہ  ہے تو دوسری طرف شیطان  کی فتنہ وفساد کرنے کی فطرت، حسد کرنا، غصہ میں آگ بگولہ ہوجانا، اللہ کی نافرمانی کرنا،  اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اللہ کی حدود سے تجاوز کرناجیسی برائیاں بھی موجود ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نفس کی سرکشی کو کچل کر اللہ کی اطاعت کے لئے سجدہ ریز ہو جائے یا نفس کی اطاعت میں ہر برائی کو اختیار کرکے نیکی کے جذبہ کو گہری نیند سلاکر  اپنی زندگی کے اصل مقصد کو بھول جائے۔

اللہ کا انسان پر سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے شیطان کےبہکائے ہوئے لوگوں پر اپنی رحمت کےدروازے کھول کر اپنی  اطاعت و فرمانبرداری کا موقعہ ہروقت فراہم کر رکھا ہے۔  لہٰذا انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے خالق ومالک کی مہربانیوں کو فراموش کرکے اپنے نفس کی اطاعت کرے۔

انسان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ زندگی کے معاملات کو بردباری  اور حکمت عملی سے نمٹانے کی کوشش کرے۔ کسی کی کامیابی پر حسد نہ کرے کہ اللہ حسد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا  کیونکہ  شیطان  انسان سے حسد کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے محروم کردیا گیا۔

غصہ کی حالت میں خود پر قابو رکھیں کیونکہ  غصہ حرام ہے   اورجب انسان  غصہ میں  اپنے  ہوش وحواس کھو دیتا ہے تو اسے  خود پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے اور کب اللہ کی حدود سے نکل کر اللہ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔

جس طرح آگ سب کچھ جلاکر راکھ کر دیتی ہے۔ اسی طرح  غصہ انسان کی نیکیوں کو مٹا دیتا ہے ۔ انسان  کو اللہ تعالیٰ نے جس محبت اور فخر کے ساتھ فرشتوں کے سامنے تخلیق کیا اور اپنی تمام مخلوق پر افضلیت دی تو اس محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے رب کی ان خصوصیات اور خوبیوں کو اپنے اندر اجاگر  کرے جس سے اس کے کردار کی خوبیاں  نمایاں ہوں اور وہ  خود کو اللہ کے دئیے ہوئے اعزاز اور مقام  کا اہل ثابت کرسکے۔ کیونکہ انسان کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ جس اللہ نے اسے  عزت ا ور بلندمقام سے نوازہ ہو اسے چھوڑ کر وہ اس کی اطاعت کرے جس نے  غرور وتکبر کی وجہ سے اسے  حقیر وذلیل سمجھ کر سجدہ کرنے سے انکار کردیا، اور پھر  حسد کی وجہ سے اسے اس کی جنت سے نکال کر  اعلانیہ طور پر اپنی دشمنی کا نہ صرف اقرار کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے اس کی نسل کو گمراہ کردینے کا عہد بھی کیا۔

تو کیا اس انسان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ دوست اور دشمن کی پہچان رکھتے ہوئے بھی دشمن کی چالبازیوں کو کامیاب ہونے دےاور اپنی تباہی وبربادی کا سامان اکٹھا کرے۔

وقتی فائدے اور کامیابی کے لئے ہمیشہ کی کامیابی وکامرانی کو نظر انداز کردے۔ اپنے نفس کی خواہشات کے سامنے ایسا بے بس اور کمزور ہوجائے کہ اپنے خالق ومالک کی حدود اور اصول وضوابط کا بھی ہوش نہ رہے۔

انسان کے  کردار کی  مضبوتی اور خوبصورتی کا راز ہی اس کی بردباری ، صبروتحمل ، تکالیف میں برداشت کا حوصلہ، خوشی میں خود پر قابو رکھنا، دکھ ودرد میں اللہ کی رضا  اور شکر ادا کرنااورمال ودولت، اولاد کی  فراوانی میں اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہی درحقیقت انسان کو اس عہدہ کا حقدار ٹھہراتی ہے جو اسے اللہ نے بخشا ہے۔

اللہ نے شیطان کو کھلا دشمن کہہ کر انسان کو واضح طور پر ہوشیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ  اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس کی زندگی کی آزمائش میں آنے والی مشکلات اور تکالیف پر  صبر وتحمل سے کام لینے کی تعلیم دے کر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کا ذریعہ بنایا۔کیونکہ اللہ اپنے بندوں پر سختی نہیں کرنا چاہتا وہ اس کی معمولی سی تکلیف پر بھی اجر وثواب کی خوشخبری دے کر اسے اس کی تکالیف میں حوصلہ وہمت  کی تعلیم دے کر اپنی بے پناہ محبت کا  یقین دلایا پھر انسان کو یہ کیسے زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے دشمن کی چالبازیوں کو کامیاب بنائے اور حسد اور غصہ جیسی آگ میں جھلس کر خود کو راکھ کرلے۔

اسے یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ مٹی کی ٹھنڈک کو آگ سے بنے ہوئے وجود کی فطرت کو اختیار کرکے خود کو جلا جلا کر خاکستر کرے اور اپنے اندر سختی اور بے رحمی جیسی خصوصیات کو پروان چڑھائے اور اپنے مقام کی عزت واحترام کا بھرم توڑ کر نفس کا غلام بن کر رہ جائے۔

 انسان کو اپنے وقار وعظمت کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق حقیقی کی دی ہوئی  انسانیت ومحبت ، ہمدردی، ایثار وقربانی ، بردباری  اور صبر وتحمل کی خصوصیات سے اپنے کردار کو سجائے کیونکہ یہی  اس کی شخصیت کو نکھارتی اور سنوارتی ہے۔

اے انسان تو اس خالق ومالک کا غلام ہے جس کے بعد تو ہر ایک کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن جب تو اپنے  نفس کا غلام بن جاتا ہے تو  ذلت وخواری تیرا مقدر  بن جاتی ہے،پھر ساری دنیا کی غلامی کی زنجیر میں ایسا جکڑا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد ہی آزادی نصیب ہوتی ہے۔

اسی لئے انسان کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ آگ کا رویہ رکھے اور اپنی ذات کی خوبصورتی کو جلاکر راکھ کر دے۔یعنی اللہ کی  اطاعت و فرمانبرداری سے منہ موڑ کر اپنے نفس اور شیطان کی پیروی کرکے آگ کو اپنا مقدر بنائے۔