آئیں آزادی سے ملیں

یہاں ہمارے لئے یہ طے کرنا بہت ضروری ہے کہ قید پہلے ہوئی ہوگی تب ہی لفظ آزادی کے وجود نے جنم لیا ہوگا ۔ یعنی آزادی کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے قید میں رہنا لازمی جز قرارپاتا ہے ۔ آزاد قید ہوجائے تو آزادی کی اہمیت و افادیت کی حقیقت کے رازوں سے پردے اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ قید کی مختلف اشکال ہیں جن میں کچھ یہ ہیں جیسے، قید انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور قید اجتماعی بھی ، قید نظریات کی بھی ہوسکتی ہے ،قید روایات کی بھی ہوسکتی ہے ، قیدنظریوں کی بھی ہوسکتی ہے ، سماجی اقدار کی پاسداری کی قید بھی ہوسکتی ہے ،دور حاضر میں سماجی ابلاغ اور بہت سارے عوامل جنہیں قید کیا جاسکتا ہے ۔

 ان قیدزداؤں نے آزادی کی قدر نہیں کی ہوتی یا پھر اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا ہوتا ہے، یا پھر کوئی طاقتوراپنی طاقت کے زور پر قید مسلط کردیتا ہے،جس کے نتیجے میں قید کا طوق گلے کا ہار بنالیا جاتاہے اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر نالاں ہوتے ہیں اور اس عزم کیساتھ کے اب ایسا نہیں ہوگا آزادی کیلئے تحریک چلاتے ہیں جو کہ بہت کم ہی کارگر ثابت ہوتی ہے، جھوٹ اور مکاری انسان کو پہلے ہی کمزور کر چکی ہوتی ہے جس طرح سے اسنے غداری کی ہوتی ہے پھر اسکے ساتھ غداری ہونا تو بنتا ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ انسان کی غلط حکمت عملیا ں بنے بنائے کھیل کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہیں ۔

لفظ آزادی اپنے اندر ایک تحریک لئے ہوئے، جسکے سنتے ہی جسم میں سنسنی سے پھیلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ معاشروں میں آزادی کی مختلف اقسام رہتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ہیت تبدیل کرتی رہتی ہیں اور اس لفظ کے چاہنے والوں میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ آزادی خریدی نہیں جاسکتی اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا کے مسلمان فلسطین اور کشمیر کی قیمت ادا کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں، یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قید میں رکھنے کے مقاصد بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ اپنی طاقت اپنے اثر و رسوخ کا چرچا کرنایا پھر دنیا کو اپنے تابع کرنے کی کوششوں کا عندیہ دینا ۔ آزادی دنیا کی بڑی سے بڑی دکان پر یا بڑے سے بڑا ادارے پر بکتی نہیں ہے، اسکے لئے عظیم جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور بے دریغ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، آزادی کی جدوجہد ایک ایسا میدا ن ہے کہ جہاں آپ کو اپنی سب سے قیمتی شے یعنی زندگی بھی دیناپڑتی ہے ۔آزادی کی طلب کسی مخصوص زاوئیے کی محتاج نہیں ہے ، اسکی طلب وجہ بتائے بغیر بھی موجود رہتی ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تربیت و تہذیب یافتہ قو میں آزادی کو بطور مکمل حاصل کر چکے ہیں یا پھر انہوں نے ایسے پیمانے ترتیب دے دئیے ہیں کہ جوآزادی کی حدوں کا تعین کئے ہوئے ہیں ۔ بہت ساری باتیں اور پیمانے مفروضوں پر ہی منحصر ہوتی ہیں لیکن پھر بھی انکی پاسداری قوموں کے عروج کا سبب بنتی ہیں ۔ شائد ایسا ہی ہوتا ہے اسی لئے وہ تربیت و تہذیب یافتہ کہلوانے کے قابل ہوپاتے ہیں اور ان کی طلب کسی ایسے مطالبے کی محتمل نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے کسی مختلف نظرئیے کا وجود پیدا ہوسکے ۔

ایک بار اپنے اس مضمون کو عنوان کو پڑھا تو ایسا لگا کے قارئین کو کچھ غلط فہمی کا سامنا نا کرنا پڑے، اگر اگست کے مہینے کے علاوہ اسے پڑھیں تو حالات و واقعات ذہن میں اس آزادی کا بلب روشن کردینگے جیسی گزشتہ دنوں اسلام آباد میں بانی پاکستان کی تصویر کے سامنے بنائی گئی، اس سے قبل بادشاہی مسجد میں فلم بند ہوئی اور اسکی باقاعدہ تشہیر کی گئی ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر حدوں کا تعین نا کیا جائے تو آزادی کا سفر تباہی اور بربادی کی منزل پر تمام ہوتا ہے ۔ بطور مثال دوقومی نظرئیے کو لیجئے جس نے ناصرف تحریک پاکستان کی نظر یاتی سرحدوں کا تعین کیا اور آزادی کی سمت متعین کی ۔ آزادی تو مل گئی لیکن مستحکم نہیں تھی جس کی وجہ بنگلا دیش کے قیام کی صورت میں سامنے آگیا ۔ تحریک کا صرف مقصد کے حصول تک محدود رہنا نقصان کا باعث ہوسکتا ہے اور ترقربانیوں کو ضائع کر سکتا ہے ۔ تحریک کا تسلسل استحکام تک رہنا چاہئے، بصورت دیگر سب کئے کرائے پر پانی پھر جانے قوی امکان باقی رہتا ہے ۔

 اس بات کو بھی طے کرنے پر زور دیتا ہے کہ فریقین آزادی کی وجوہات پر نا صرف متفق ہوں بلکہ مستقبل میں پیدا ہونے والے داخلی مسائل پر نظریاتی حل پر توجہ دیں ۔ یہاں یہ بحث توہمیشہ سے ہی ہوتی رہی ہے کہ پاکستان بنانے والے پاکستان کی تشکیل کے بعدزیادہ دن پاکستان کے وجود کی ترجمانی کرنے اور اپنے جانشینوں کا تعین کرنے سے قبل ہی رخصت ہوگئے ۔ یہ ایک امتحان تھا جس میں پاکستانی قوم نے وقتی طور پراپنے آباءو اجداد کی آنکھوں دیکھی قربانیوں کا بھرپور پاس رکھا جس کا منہ بولتا ثبوت ۵۶۹۱ کی جنگ ستمبر ہے جب پوری قوم اپنی فوج کے شانے سے شانہ ملائے ہر محاذ پر کھڑی تھی ۔ لیکن یہ کھڑا ہونا یہ اتحاد کا تاریخی مظہر زیادہ دن نہیں چل سکا دشمن نے ہماری صفوں میں اپنے لوگ داخل کردئیے بلکہ ہمارے لوگوں کو اپنے لئے منتخب کرلیا جس کا ثبوت ہمیں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں دیکھنا پڑا ۔

اس کے بعد سے پاکستان نے جیسے تنزلی کی جانب پیش قدمی شروع کردی ملک کی قیادت اپنے حقیقی وجود سے غافل ہوتی چلی گئی، پھر یہاں تک غافل ہوئی کے اپنی آزادی کو قیدی بنا کر رکھوا دیا ۔ پاکستان بری طرح سے ہر میدان میں پیچھے ہوتا چلا گیا معیشت کیا کھیلوں کے میدان کیا غرض یہ کہ جیسے بہت سارے دشمن کے آلا کاروں نے گویا سلائیڈ شروع کردی مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلائیڈ سے مخصوص طبقے نے فائدہ اٹھایا اور نا صرف انکے بچے باہر کے ملکوں میں لکھ پڑھ رہے ہیں بلکہ کاروبار بھی وہیں کر رہے ہیں ۔ ملک کو اندھی کھائی میں دھکیلا گیا اور ایسے لوگوں کو ہر ممکن کوشش کرکے بالائے طاق رکھا گیا جو ملک و قوم کیلئے سود مند ہوسکتے تھے یا ملت کا درد رکھتے تھے ۔ انگنت سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں اتنی ہی تعداد مذہبی جماعتوں کی ترتیب پائی ۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو ہر ممکن صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔

یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ آزادی کی صحیح اور واضح تصویر اپنی نسلوں کو منتقل نہیں کی گئی اور ناہی سمجھایا گیا ، ایک عمومی مثال لے لیتے ہیں ملی نغمے بنتے ہی رہتے ہیں تقریبا گانے والے کوئی نا کوئی ملی نغمہ ضرور پیش کرتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ محترمہ نورجہان صاحبہ اور انکے ساتھ کے گانے والوں کے گائے ہوئے ملی نغمے آج بھی اسی طرح سے لہو گرماتے ہیں، ان میں آج بھی وہی تاثر موجود ہے جو پہلے دن تھا، ان ملی نغمے لکھنے والوں کے الفاظ دل کے خون سے لکھے ہوئے تھے، ان ملی نغموں کی بنائی گئی دھنیں جی جان سے بنائی ہوئی تھیں، سب سے بڑھ کر انکا مقصد لوگوں کی سماعتوں تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ دل سے دل تک رسائی رکھنا چاہتے تھے ۔ حب الوطنی اپنی اصل حالت میں موجود تھی ۔

دراصل آزادی بھی ان نعمتوں میں سے ایک ہے کہ جن کی قدر نا کی جائے یا حفاظت نا کی جائے یا پھر محافظ مفاد پرست ہوں تو پھر قدرت اس نعمت سے محروم کردیتی ہے ۔ آج فلسطین ، کشمیر اور افغانستان کے حالات ہمارے لئے کسی آفتاب کی طرح روشن ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم اس خام خیالی اور گمان میں ہیں کہ ہماری آزادی صلب نہیں کی جاسکتی ۔ دراصل دشمن کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ ہماری زمینی سرحدوں پر قبضہ نہیں کرسکتا اسلئے یہ ارادہ عرصہ دراز قبل ترک کردیا تھا کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ ایسا کرنا ناممکن ہے جس کے بعد انہوں نے ہمارے نظریات، ہماری سوچ، ہماری اقدار اور سب سے بڑھ کر ہماری نسل کے اذہان پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل پیرا ہوگئے ۔ آزادی کو تقسیم در تقسیم کر کے پیش کیا جانے لگاسب سے پہلے تو مغرب اور مشرق کی تفریق کو ختم کرنے پر زور دیا گیا اور تقریبا ً حالات کو بھرپور طریقے سے بے راہ روی پر گامزن کردیا گیا ہے ، یہاں صلاح الدین ایوبی ;231;کا تاریخی جملہ رقم کرتے چلیں کہ کسی بھی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں میں بے حیائی عام کردو ۔ کیوں کہ انکے دور میں بھی ایسا ہوچکا تھا اسلئے انہوں نے اس تجربے کی بنیاد پر یہ بات بطور آگاہی کہی ۔ میڈیا کی آزاد کروایا گیا ، سماجی ابلاغ کو دورِ جدید کا سب سے بہترین اسلحہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کے مثبت کم اور منفی پہلو بہت زیادہ ہیں لیکن اب کچھ واپس نہیں ہونے والا ۔ ہم بطور قوم ہر تہوار چاہے وہ مذہبی ہو یا پھر قومی یا ملی ایسے مناتے ہیں کہ پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیتے ہیں لیکن ہم ان تہواروں کی روح تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے جسم باقی ہے روح پرواز کرچکی ہے۔

پاکستانیت کا بیج اب گاڑنا پڑے گا کیونکہ زمین کی زرخیزی اب مصنوعی کھاد کی نظر ہوچکی ہے ، سب سے پہلے تو مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا پڑے گا، اسکے بعد لسانیت کی نفی کرنی پڑے گی ، بین الصوبائی تقرریاں لازمی قرار پائی جانی چاہئیں تاکہ علاقائی مسائل سے سب کی ہم آہنگی ہوسکے ، اساتذہ کو کسی خاص مکتبہ فکر کی تعلیم دینے سے گریز کرنا چاہئے غرض یہ کہ ایسے کسی ادارے کو جو اپنے سیاسی یا مذہبی عقائد و مفادات کے فروغ پر مبنی ہو ں سرکاری مداخلت سے یکساں نصاب پر منتقل ہونے چاہئیں ، اسلامی تعلیمات و اقدار ہی پاکستان کی آساس ہیں ان پر عمل کروانا ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہئے ۔ ایک اور چیز کہ پاکستانیت کو اجاگر کرنے کیلئے نصاب میں تحریک پاکستان سے متعلق تقریباً گریجویشن تک ایک کتابچہ شامل کیا جائے جو ہماری نسل میں بطور بیداری اینٹی باءوٹیک کا کام کرسکے ، ہمارے وہ تمام نامور اور گمنام سیاسی و عسکری کارگردگی سے پاکستان کی پہچان کا سبب بنے ہوں ان میں شامل ہوں ۔ آزادی کا جشن آزاد قو میں منا تی ہیں لیکن اسطرح نہیں کہ وہ اپنے بھائیوں کی غلامی کے مذاق کا سبب بن جائیں ۔ ہ میں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم آنے ولی نسلوں کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر غلامی کے طوق میں بندھا ہوا ہ میں اس جشن آزادی پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔