“جمہوریت ” مضبوط خاندانی نظام تباہ کرنے کا نام

پاکستا ن میں یوں تو ہر روز کوئی ایسا  واقعہ ظہور پزیر ہوہی جاتا ہے جس کو دیکھ  اور پڑھ کر دل دہل جاتاہے اور شاید اب یہ   ہمارے  روز مرّہ کا معمول ہو چکا ہے کہ  اس واقعہ کا دکھ اور صدمہ ابھی  ہلکا بھی نہیں ہوتا کہ ٹی وی پر ایک دوسرا واقعے کی خبر نشر ہوجاتی ہے، واقعات کے اس تسلسل نے ہمارے احساس کو مار ڈالا ہے ۔یہاں  عنایت علی خان ٹونکی صاحب کا  شعر یاد آیا کہ

حادثے  سے بڑا یہ سانحہ  ہوگیا

لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کے

اسلام آباد جیسے شہر میں  جہاں حکومت کی رٹ ملک کے باقی شہروں سے زیادہ  مثالی نظر آنی چاہیئے  کیونکہ یہ ملک کا دارلحکومت ہے  یہاں سے جاری ہونے والے احکامات ملک کے ہر کونے میں ایک آن میں نافذ العمل ہوجاتے ہیں ایسے شہر میں نور مقدم کے بے ہیمانہ قتل کا ہوجانا  کوئی عام بات نہیں ہے مگر واقعات کا تسلسل یہی بتا رہا ہے کہ یہ عام سی بات ہے اور اب اس کے طرح کے واقعات  روز مرہ کے معمول ہونگے۔

یہ جو جمہوری نظام ہے یہ تو رکھوالا ہے   ایسے نظام معیشت کا جو سود کی غلاظت میں لتھڑا ہے ،یہ تو رکھوالا ہے ایسے اقدار کا جو مذہب بیزار ہے ،یہ حقوق نسواں کا ایسا علمبردار ہے جو  عورت کو اتنا خود مختار بنا نا چاہتا ہے جہاں اس کو نہ باپ کی ضرورت ہو ،نہ بھائی کی ضرورت ہو اور نہ ہی شوہر کی ضرورت ہو۔سیکولرزم کیے  یہ چند  نمایاں گوشے ہیں یہ دراصل ایک ایسا طریق زندگی ہے جس کو مغرب نے پوری دنیا  میں بطور دین نافذ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اس کے تحّفظ کے لیے  مغربی جمہوریت کا  نظام حکومت ہے جو کہ اس کی رکھوالی  آج تک کرتا آرہاہے۔

یہ نظام  گذشتہ دوسو سال سے دنیا کے ان تمام قوموں سے نبردآزما ہے جہاں جہاں کسی بھی طرح سے حوا کی بیٹی کا احترام موجود ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ عورت مارچ دوسوسال سے اسی طرح منعقد ہوتا آرہا ہے ۔ سیکولرزم یا لبرل ازم نے دوسوسال پہلے یورپ کی اس تہذیب کو شکست دی جو عورتوں کو احترام دیا کرتاتھا   اس لبرل ازم کی یلغار کے خلاف   جو کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے کا خواب دکھارہا تھا  یورپ میں اس کی راہ کو روکنے کے لیے کئی مزاحمتی تحریکیں سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں چلی اور سب نے کوشش کی کہ اس یلغار کو روکا جائے اور اپنے معاشرے کو اخلاقی تباہی سے بچایا جا سکے مگر کلیسا کے  آپس کے انتشار  اور مذہبی  نمائندوں کی تعیش پسندی کی وجہ سے یہ تحریکیں  اس فحاشی اور بے حیائی کے سیلاب کو نہ روک سکیں  اور سیکولر ازم اور لبرل ازم نے بنیاد پرستی کی ان تحریکو ں کو بدترین شکست سے دوچار کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے  پورا مغرب  سیکولر ازم اور لبرلازم کے غلیظ اور تعّفن زدہ رنگ میں رنگ گیا ۔سیکو  لرازم نے صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ  مذہب کو  اہل مغرب کے کے اجتماعی معاملے سے نکال کر  انفرادی معاملہ بنا ڈالااور   اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ  اب مذہب  انسانوں کی نجی زندگی سے بھی رخصت ہوگیا۔

یورپ سے نکل کر اس نے اسی غلیظ  رنگ میں ساری دنیا کو رنگنے کی   مہم  جاری رکھی اس نظام کی رکھوالی کرنےکے لیے جمہوریت کا  سیاسی نظام کا نام بنایا ۔ یہ نظام اپنے  چاہنے والوں کو خواب دکھا تاہے   ایسے خواب جو کہ صدیوں تک بھی پورے نہیں ہوسکتے  جیسا کہ اس سے عورت کو  گھر سے نکال کر مردوں کے مقابلے کے لیے  میدان میں لا کھڑا کیا ، اس سے بحیثیت   ماں  احترام کی چادر سرکائی ، بحیثیت  بیوی  اس کی زندگی سے شوہر کا سایا چھینا، بہن اور بھائی  کی محبت کی پاکیزگی چھینی  اس کو معاش کا بیلچہ پکڑا کر اس کو بازار کا  راستہ دکھا دیا۔ اب عورت  اس سراب کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہے  جو کبھی ملنے والا نہیں ہے   اس سراب کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اس کی چادر کہیں گرگئی حیا والے لباس کے لیے  عورت کے اس دشمن  نظام نے اس کو یہ فریب دیا ہے کہ وہ   کامیابی   (سراب) جس کے پیچھے تم  بھاگ رہی ہو  تمہارا لباس تمہاری رفتار کم کررہے ہےلہٰذا   لباس بھی اس ظالم نظام نے مختصر کروادیا ہے۔

سیکولرازم یا لبرل ازم  کے پاس  الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ہتھیا ر ہیں اور خاص طور پر لبرل ازم کی کوکھ سے جنم لینے والا  یہ جدید میڈیاہے جو کہ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ دنیا بھر میں ذہن سازی کررہا ہے ۔ اس میڈیا نے معاشرے  میں فحش اشتہار، ڈراموں اور فلموں  کے زریعے پورے معاشرے کو ہیجان  اور جنس زدہ بنا دیا ہے۔  چونکہ یہ میڈیا لبرل ازم کی کوکھ میں پلا بڑھا ہے  ۔یہ نظام  اس جدید میڈیا کو  بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے ۔پوری دنیا  کا میڈیا اس وقت  سیکولرازم کے کنٹرول میں ہے۔

یہ سیکولرازم یا لبرل ازم ہمیں ایسا تعلیم نظام دیتاہے جو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا  یہ سب سے پہلے انسان کو اسکے رب سے دور لے جاتاہے اور اس کےبعد اس کو انسانوں سے دور لے جاتاہے اس کے بعد اس کو اپنے مفادات کا بندہ بنا دیتاہے ۔ان مہنگے سکولوں میں والدین اپنے بچّوں کو داخل کرکے اپنی  عمر بھر کی کمائی  اس پر وار دیتے ہیں۔وہ بار بار اپنے بچّوں سے یہی کہتے ہیں سمجھانے کے انداز میں کہ بیٹا ! مجھے تجھ سے کچھ نہیں چاہیئے بس تم اپنی تعلیم پر توجہ دو ۔۔۔ اور پھر یہی بچّے جب اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے  اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں تو والدین کو اولڈ ایج  ہوم میں یا بے  یا ر و مددگار  چھوڑ کر اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں  رواں دواں ہوجاتےہیں ۔اس لیے کہ  والدین خود ہی  یہ  بچّوں کو سمجھاتے  کہ ہمیں  تم سے کچھ نہیں چاہئے بس بیٹا تم اپنی تعلیم پر پوری توجہ دو !یہ سب اسی  تعلیمی  نظام کا کرشمہ ہے جو مغربی  نظام کا عطا کردہ ہے اور اصطلاحات کے نام پر اس کی مزید صورت گری ہونی باقی ہے ۔اس  نظام نے تو مغربی  تہذیب و تمدن کے پرخچے اڑا دئیے ہیں مگر نہ جانے کیوں ہماری رال اس خادردار نظام پر ٹپکتی ہے۔

بچّہ  فطر ت اسلام پر پیدا ہوتا ہے  دنیا  میں آنے کے بعد جیسی  تربیت اس کے والدین دیتے ہیں  وہ اسی طرح  کا  ہوجاتاہے ،اسی نظا م  کی نرسری میں ایسے افراد تیار ہوتے ہیں  جن کی بیٹیاں گھروں سے بغیر اطلاع دئیے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ شہروں شہروں گھومتی  پھر تی   ہیں  برسوں ساتھ رہ کر شادی کا فیصلہ کرتے ہیں اور ملالہ یوسف زئی نے تواس نکاح جیسے مقدس  سنت پر حملہ کرکے  یہ واضح کردیا ہے کہ اب  پاکستان میں  رہنے بسنے والے مسلمان اپنے خاندانی   نظام کی خیر منائیں کیونکہ یہ حملہ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا سے لیس مغربی جمہوریت  کر رہا ہے ۔ایسے میں ہم سب کی ذ مّہ  داری بنتی ہے کہ ہم اسلام کو سمجھیں اور اپنی نسل نو کی بقا کے لیے تعلیمی نظام کو  اسلامی بنائیں  اور ہر محاذ پر ٹھوس دلائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں ۔اسلامی نظام تعلیم ہی  دراصل  ایسے افراد پیدا کرسکتاہے جو سیکولر ازم اور لبرل از م کے سامنے سد راہ  ثابت ہوسکتاہے ۔بصورت دیگر  ملالہ یوسف زئی جیسے بیکٹیریا ہمارے معاشرے سے پیدا ہونگے اور مغرب   انہیں اپنے کمین گاہ میں پالے گا ۔اور ان کےزریعے ہمارے نظام پر حملہ آور ہوگا ۔نہ جانے کتنی نور مقدم   اپنے  ہم خیال  ظاہر جعفر کے ہاتھوں   اپنے گلے کٹوائیں گی جہاں برسوں  لائف  پارٹنر  کے طور پر زندگی گزارنے والے  اور ملالہ یوسف زئی کے بقول  مرد عورت کے ساتھ رہنے کے لیے نکاح نامے پر دستخط کرنا کیو ں ضروری ہے ؟سمجھ سے باہر ہے ۔ مغرب میاں بیوی کے اس بنیادی ادارے پر مسلسل وار کررہا ہے   جس  کی تازہ مثال ہندوستان کے ایک اداکار عامر خان  نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی  مگر پھر بھی انہوں نے  ایک چھت کے نیچے ساتھ بحیثیت پارٹنر کے رہنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ اپنے بچّے کی پرورش کریں گے ۔یہ واقعات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ  مسلم معاشرہ جو کہ ایک مضبوط خاندانی  نظام کی تشکیل کرتاہے اور  جس کا  بنیادی ادارہ رشتہ ازدواج  ہے اسی ادارے سے تمام رشتے  جنم لیتے ہیں ۔ یہ ادارہ آج کے لبرل ازم اور سیکولرازم کی آنکھوں میں کانٹے سے زیادہ تکلیف دہ ہے ۔ اس پر ہر آن حملے ہورہے ہیں۔