گلاب جیسے لوگ

باغ میں لگے رنگ برنگے پھولوں کی طرف دیکھو جہاں ہر قسم اور ہر رنگ کے پھول اپنی ایک مخصوص خوشبو کے ساتھ خوبصورتی میں اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ باغ کا مالک اپنے باغ کے رنگ برنگے پھولوں سے اپنے باغ کو سجاتا ہے ۔ مگر گلاب اپنی خوبصورتی اور نزاکت کی وجہ سے سب سے منفرد نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے اس کے ساتھ کانٹوں کو اس کا حصہ بنادیااور اگرکوئی اس کو توڑ لیتا ہے اور اس کی پتیاں بکھر جاتی ہیں مگر اس کی خوشبو ہاتھوں میں رہ جاتی ہے جو اس کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ اسی لئے باغ کا مالی پورے باغ کی نشونما کے ساتھ ساتھ اپنی خصوصی توجہ گلاب کی دیکھ بھال اور حفاظت پر مرکوز رکھتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں بےشمار مخلوقات پیدا کیں مگر انسانوں کو سب پر فوقیت دے کر واضح کردیا کہ یہ میرابہترین شاہکار ہے یعنی اس کی حیثیت بھی باغ کے گلاب کی طرح ہے جس کی حفاظت اور دیکھ بھال کا خاص رکھا جاتا ہے۔ ان کی جسمانی نشونما اور بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے جس کے لئے اللہ اپنے مقرر کردہ بندوں کو ان کی رہنمائی کے لئے بھیج کر انہیں ہر گندگی وغلاظت سے پاک رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ یہ اس کائنات کی تمام مخلوقات میں اپنے اعلیٰ مقام پر نمایاں نظر ائیں اوراللہ کے مقرر کردہ بہترین و معزز تمام ہی انبیاءاپنی مثال آپ ہیں لیکن ان سب میں سب سے افضل ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت گلاب کےپھول سی ہے۔ جن کے کردار وعمل کی مہک ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود آج بھی روح کو مہکا دیتی ہے۔ جن کی تعلیم کی روشنی عملی طور پرقیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے ایسا راستہ ہےجس پر چلنے والاگلاب کی خوشبو کی مہک سے اپنی روح کو معطر کرسکتا ہےاورپھر وہ ایسی ایمانی طاقت کامالک بن جاتا ہے جو عالم اسلام میں کردار وعمل سے سب میں وہ نمایاں مقام پر حاصل کرلیتا ہے جس کو اللہ پسند کرتا ہے۔

کائنات کے پالنے والے کی نظر اپنی ہر مخلوق پر ہے مگر خصوصی نظر انسانوں پر ہے کیوں کہ وہ اپنی اس مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے ۔ وہ بھول چوک کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ دانستہ ہونے والی غلطیوں پر تنبیہ کرتا ہے کہ رک جاؤ اپنی اصلاح کرلو۔گناہ کرنے والےجب احساس شرمندگی پر معافی مانگتے ہیں تو وہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جب کوئی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سےاپنی روش پر قائم رہتے ہیں تو وہ ان کو ڈھیل دے کر اور کبھی سزا دے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ اس کی محبت ہے کہ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو بھی ہر ممکن طریقے سے آخرت کی سزاسے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

یہی زندگی کے رنگ ہیں جو اللہ کی رنگ برنگی آزمائشوں اور نعمتوں کی فراوانی اور کمی کی صورت میں انسان کو مصروف رکھتے ہیں ۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ آزمائش پر پورے اترتے ہیں اور گلاب کے پھول کی طرح اپنے اعمال کی خوشبو چھوڑ کر جاتے ہیں یا دوسروں کے لئے تکلیف دہ کانٹے بن کر زخم دینے والے۔ جب دکھ تکلیف بڑھ جائے تو سمجھ لو کہ آپ کا رب آپ کو کوئی بہترین انعام دینے والا ہے اس لئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھام لینا کیوں کہ آپ سے حسد رکھنے والا آپ کا دشمن ( شیطان اور انسان)آپ کو کمزور کرنے کے لئے کوئی بھی حربہ استعمال کرکے آپ کو اس انعام سے محروم کرنا چاہتا ہے اور جب خوشیاں اور نعمتوں کی فراوانی ہو تواپنے ہوش وحواس قائم رکھنا کہ آپ کا دشمن موقعہ کی تاک میں ہے اور آپ کی غفلت سے فائدہ اٹھاکر ان کو چھین لینا چاہتا ہے یعنی دکھ و تکلیف میں صبر اور مسرت وخوشی میں عقل کے گھوڑے کو قابو میں رکھنے والا ہی باغ میں لگاگلاب کا پھول ہوگا۔

آئیے عہد کریں کہ ہم اس دنیا کے باغ میں گلاب کی مہک بن کر اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ہدایات کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ اللہ کی کائنات (دنیا کی کھیتی )میں گلاب کے پودے لگائیں تاکہ اس کی خوشبو اور مہک سے (برائیوں اور گناہوں کی پرورش کا)تعفن اور بدبو سے محفوظ رہا جا سکے۔ بڑی نیکی یا کسی بڑے جہاد کا انتظار نہ کریں اپنی اپنی استطاعت اور وسائل کو بروئے کار لاکر جو چھوٹی چھوٹی نیکیاں جمع کرسکتے ہیں ضرور کریں ۔ کیونکہ آخرت میں یہی معمولی نظر آنے والا چھوٹا سا عمل آپ کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ آئیے ہم گلاب بن کر اپنے اسلامی معاشرے کی نشونما کریں ۔
یعنی دکھ و تکلیف میں صبر اور مسرت وخوشی میں عقل کے گھوڑے کو قابو میں رکھنے والا ہی باغ میں لگاگلاب کا پھول ہوگا