Exams نہیں Assesments

آپ کووڈ کی مثال لے لیں۔ یہ بچوں کو سکھانے کا اور بہت کچھ سکھانے کا ایک اہم ترین موقع تھا یہ لائیو کیس اسٹڈیز تھیں بچے اس سے جتنا سیکھتے اور جتنا سیکھ چکے ہیں اسے شیئر کرتے تو یہ “کورونا” ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیتا۔ اسکولوں کو بھی امتحانات لینے کی جھنجھٹ سے چھٹکارا حاصل ہو جاتا۔

پچھلے دنوں جو الفاظ سب سے زیادہ سننے میں آئے ہیں وہ وائرس، وائرل ویکسین، اینٹی باڈیز، آکسیجن سیلنڈرز، سانس لینے میں تکلیف، کھانسی میں زیادتی، نوول کرونا، پھیپھڑوں سے متعلق بیماریاں اور ان سے جڑی سینکڑوں اصطلاحات ہیں جو آج کل بچہ بچہ روز سن رہا ہے آپ ان سمیت مزید اصطلاحات پر بچوں کو کوئی دلچسپ پریزینٹیشن بنانے کو دے دیتے، ان کے بارے میں واوئیوا رکھ لیتے، ورڈ پرابلمز بنالیتے۔ بے شمار آئیڈیاز تھے جن کی مدد سے سائنس کا ایک بڑا حصہ کور کیا جاسکتا تھا۔

ایک بچے نے پورے لاک ڈاؤن میں کیا محسوس کیا؟ اس کے اپنے کیا جذبات، احساسات، خیالات اور خواہشات تھیں، اس کو پڑھائی کے طعنے دینے کے بجائے ہم اس کی جگہ کھڑے ہو کر اس کی برجستگی اور اس کا مافی الضمیر معلوم کرتے، تحریر کی شکل میں تصویر یا ویڈیو کی شکل میں ان سے وی لاگ بنواتے اسی کو تحریر کرواتے۔ اسکول کا ایک میگزین شائع کر دیتے ہر کلاس کو ٹاسک دے دیتے کہ آپ نے انگریزی اور اردو کا میگزین نکالنا ہے پھر آپ ان کی مہارت اور صلاحیت دیکھ کر دنگ رہ جاتے۔

ہاتھ کیوں دھوئے جائیں؟ کتنی دیر تک دھوئے جائیں؟ ماسک کیوں لگایا جائے؟ فاصلہ کیوں رکھا جائے؟ ہر جگہ قطار میں کیوں کھڑا ہوا جائے؟ صفائی ستھرائی کا خیال، اطراف والوں کو گندگی اور غلاظت سے بچانے کی فکر۔ ان تمام معاشرتی خوبیوں کو پروان چڑھانے کا ایک سنہری موقع تھا اور وہ معاشرتی علوم” جو محض نمبرز لینے کے لیے ہوتی ہے شاید حقیقی معنوں میں بچوں کے اندر کچھ “معاشرت” پیدا کر دیتی۔

روزانہ کی بنیاد پر ساری دنیا کے کرونا کے اعدادوشمار دکھائے جاتے ہیں آپ بچوں کو انہی کا گراف، تعداد، کیسسز میں زیادتی کمی وغیرہ کو نوٹ کرواتے اعداد و شمار کو الگ الگ انداز میں لکھنا اور دکھانا سکھا دیتے۔ روز کے اعداد و شمار واٹس ایپ گروپ پر منگالیتے اس پر کوئی کیس اسٹڈی دے دیتے، انہی کی مدد سے جمع، تفریق، ضرب، اور تقسیم کے سوالات بن جاتے اور اس طرح ریاضی یا حساب کا مضمون بھی بچوں میں دلچسپی کا باعث بن جاتا۔

ہم بچوں کو سمجھا پاتے کہ یہ وبا اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہے۔ کون بچہ روز کتنی مرتبہ وضو کرتا ہے؟ فرائض کا اہتمام کون کرتا ہے؟ صبح و شام کے اذکار کس کس کو یاد ہوئے؟ روزانہ استغفار کتنی دفعہ کون پڑھ رہا ہے؟ نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے طریقے قرآن پاک کی تلاوت مع ترجمہ کس کس نے اس کا اہتمام کیا؟ بچوں میں اس کا شوق پروان چڑھایا جاتا اور اس کے متعلق پوچھ لیا جاتا تو شاید ان میں “اسلامیات” کے نمبرز کے بجائے “حقیقی اسلام” پنپ جاتا۔

یہ اور ان جیسے سینکڑوں طریقے ہیں جن کے ذریعے خشک یا پھیکے انداز میں روایتی طریقوں سے امتحانات لینے کے بجائے جائزہ( اسسمنٹ) کے طریقے کو اختیار کیا جاسکتا تھا بچوں کو نہ صرف حقیقی تعلیم دی جا سکتی تھی بلکہ ان کی تربیت کا بھی ایک بڑا ذریعہ یہ “کورونا” بن سکتا تھا۔

مگر کیونکہ ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر اس لیے ہم بچوں کو کوسے دیں گے، پڑھائی نہ کرنے کے طعنے دیں گے، پڑھائی چور اور جاھل گنوار تک بول دیں گے مگر معاشرے کی حقیقی ضرورت اور ان کی دلچسپی دیکھتے ہوئے اپنے انداز تبدیل نہیں کریں گے۔ امتحانات میں اور جائزے میں ایک بہت بڑا فرق یہی ہوتا ہے امتحان میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں رٹے لگوا لگوا کر خوامخواہ پورے اور لمبے چوڑے سلیبس میں سے کچھ بھی پوچھ کر اسے پھنسایا جاتا ہے اور یہی پھنسنا اس کی جیت اور ہار کا فیصلہ کرتا ہے۔

اس کے برعکس جائزہ(اسسمنٹ) میں ہم بچوں سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ انہیں پڑھایا تھا انہوں نے اس میں سے کتنا سیکھا؟ اس کی بنیاد پر ان کی اصلاح کی جاتی ہے۔ اگر تو وہ بہت سست روی کا شکار رہے تو پھر انہیں فیل کرنے کے بجائے دوبارہ اور زیادہ محنت اور دلچسپی کے ساتھ یہی چیزیں سکھائی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ امتحان کے بجائے جائزے(اسسمنٹ) کے طریقے کو اسکولز میں بروئے کار لایا جائے تاکہ بچے حقیقی معنوں میں کچھ سیکھ سکیں اور اساتذہ اکرام بھی اپنی معلومات اور مشاہدے میں اضافہ کر سکیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔