نفسیاتی مسائل کا شکار نوجوان

نوجوانی ایک انوکھا اور ابتدائی وقت ہے۔  اس عمر کے افراد جن کی عمر10سے 20سال کے درمیان ہوتی  ہےمتعدد جسمانی وجذباتی تبدیلی میں مبتلا ہوتے ہیں۔  ایسے افراد نہ صرف ذہنی و جسمانی بدلاؤ کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی تبدیلیاں بشمول  مالی حالات  اور لوگوں کا رویہ نوجوان دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تنگ دستی اور ناروا سلوک نوعمروں کو ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بنا سکتی ہے۔  نفسیاتی تندرستی کو فروغ دینا اور نوعمروں کو منفی تجربات سے بچانا بے حد ضروری ہے۔ نوجوانوں کی  فلاح و بہبود اور  ان کی جسمانی اور ذہنی صحت  کا خیال رکھنا  ایک مثبت معاشرے کی بقاء کے لیے بے حد اہم ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی اعداد و شمار کی مطابق ہر چھے میں سے ایک نوجوان جس کی عمر10 سے 19 سال ہے ذہنی عارضے کا شکار ہے۔  عالمی سطح پر کی جانے والی ریسرچ کے مطابق  16فیصد  بیماریاں اور حادثات میں زخمی اور مرنے والوں کی تعداد10سے19سال کے عمر کے نوجوانوں کی ہے۔

عام حالات میں ذہنی و نفسیاتی امراض 14سال کی عمر میں رونما ہوجاتے ہیں لیکن وہ بڑوں کی طرف سے نظر اندازکردیے جاتے ہیں جو مستقبل میں ایک  موزی مرض کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان نفسیاتی بگاڑ کی علامت عموماً 4سے7سال کی عمر میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں جن میں بچوں کا بات بات میں رونا، چلانا یا بلا وجہ ضد کرنا ہے۔ اسی عمر میں بچے دوسرے بچوں سے جلن اور حسد کا بھی شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے غصے کا اظہار مار کر یادوسرے بچے کی چیز چھین کر یا توڑ کر کرتے ہیں۔ یہی نفسیاتی بگاڑ یا اصلاح کا لمحہ ہوتا ہے جب بچہ اپنی انا اور ضد میں جھوٹ بولنا سیکھتا ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق عالمی سطح پر10سے 12سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے یہ بچے ذہنی و نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔اسی لیے2019تک کے اعداد و شمار  میں 10 سے19سال کے افراد میں موت کی تیسری سب سے بڑے وجہ خودکشی ہے۔

دماغی صحت کا توازن:

جوانی ذہنی تندرستی، جذبات و عادات کی نشوونما  کاایک اہم دور ہے۔ بھرپور نیند لینا، باقاعدگی سے ورزش کرنا اور جدوجہد کی لگن رکھنا ایک تندرست انسان کے لئے بے حدضروری ہے۔ نا صرف جسمانی بلکہ ذہنی و دماغی اعتبار سے  چست و توانا ہونابھی اسی طرح اہمیت کا حامل ہے جس طرح ایک جسم کا بیماری اور کاہلی سے پاک ہوناہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند دماغ مسائل کو حل کرنے کے لیے اہم  ہے۔ باہمی مہارت کو فروغ دینا اور جذبات و احساسات کو  تخلیقی انداز میں استعمال کرنا، ایک خاندان اور معاشرے میں معاون ماحول  کے قیام کے لیے اہم کردار ادا کرتاہے۔

 جوانی کے دور میں جو عوامل  تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی خواہش،  ہم عمر افراد کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا دباؤ،  جنسی شناخت کی کھوج اور ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعمال میں اضافہ شامل ہیں۔  میڈیا کے اثر و رسوخ اور صنف کے اصولوں سے نوجوانوں کی ذہنی صلاحتیوں کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ موجودہ ترقی اور مستقبل میں ہونے والی ایجادات نے نوجوانوں کو وافر مواقع فراہم کیے ہیں جس کی بدولت وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے ترقی کے خواہاں  نظر آتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ جس ماحول میں وہ پرورش پا رہے ہیں کیا وہ ان کی خواہشوں کے لیے یہ ماحول سازگار ہے کہ نہیں؟ دیگر ان کے گھریلو زندگی کا معیار،ہم عمر افراد کے ساتھ تعلقات، تشدد (جن میں والدین کی سختی اور دھونس شامل ہیں) اور معاشرتی اقتصادی مسائل وہ جزیات ہیں جو ان کی ذہنی صحت کے لئے خطرہ ہیں ۔

کچھ نوجوانوں کو غیر معیاری طرز زندگی،  معاشرتی امتیاز سلوک یا وسائل کی کمی کی وجہ سے ذہنی انتشار کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔  ان میں انسان دوست اور حساس نوعمر افراد بھی شامل ہیں جن پر بیرونی حالات و واقعات جلد اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن میں دائمی بیماری،  آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر،  ذہنی و دماغی معذوری  اور دیگر اعصابی تناؤ کے امراض  شامل ہیں۔ نوعمرحاملہ، نو عمر والدین  یا جبری شادیوں کا شکار نوجوان، یتیم اور اقلیتی نسلی یا جنسی پس منظر یا دوسرے امتیازی گروہوں  کے افراد اکثر ان امراض میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔

جذباتی عارضے:

افسردگی یا اضطراب کے علاوہ،  جذباتی عارضے میں مبتلا نوجوان  ضرورت سے زیادہ چڑچڑاپن،  مایوسی یا غصے کا سامنا کرسکتے ہیں۔  موڈ اور جذباتی وجوہات میں تیزی اور غیر متوقع تبدیلیوں کے ساتھ  ایک سے زیادہ جذباتی عارضے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر، افسردگی  10-15 سال کی عمر کے نوعمروں میں بیماری اور معذوری کی چوتھی اہم وجہ ہے۔  پریشانی 10 ویں سال کی نویں اہم وجہ ہے۔  جذباتی عارضے جس میں اسکول کاکام کرنے میں دشواری  اور اسکول کی حاضری جیسے معاملات پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ معاشرتی انخلاء،افسردگی اورتنہائی کو بڑھا تا ہے جو ڈپریشن کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور یہ مایوسی خود کشی کا باعث بھی بن سکتے ہی۔

بچپن کا غیر موثر ماحول:

بچپن میں ناروا سلوک  10-15 سال کی عمر کے نوجوانوں میں نفسیاتی بیماری کی دوسری اہم وجہ ہے اور15 سال کی عمر کے بڑے نوعمروں میں نفسیاتی بیماری کی گیارہویں اہم وجہ ہے۔  بچپن میں بدسلوکی اور توجہ کی کمی ہائپرایکٹویٹی ڈس آرڈر (توجہ دینے میں دشواری، ضرورت سے زیادہ سرگرمی اور نتائج کے حوالے سے عمل کرنے سے خصوصا  جو کسی شخص کی عمر کے لئے مناسب نہیں ہوتا ہے) شامل ہوتا ہے اورانتہا پسندی (تباہ کن یا چیلنجنگ طرز عمل کی علامات) شامل ہیں۔  بچپن میں برا سلوک نوعمروں کی تعلیم کو متاثر کر سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں مجرمانہ رویے کی وجہ بن سکتی ہے۔

کھانے میں بداحتیاطی:

کھانے میں بداحتیاطی عام طور پربچپن  یعنی10سال کی عمر سے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہے۔ کھانے کی بد اعتدالی مردوں سے زیادہ عام طور پر خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے جو افسردگی، اضطراب اور مادے  کی خرابی کا سبب بنتی ہے۔

سائکو لس:

ایسی حالتیں جن میں نفسیات کی علامات شامل ہیں،عام طور پرابتدائی جوانی میں ہی سامنے آتی ہیں۔  علامات میں مبہیت یا وہم شامل ہوسکتا ہے۔  ان تجربات سے نوجوانوں کی روزمرہ کی زندگی اور تعلیم میں حصہ لینے کی صلاحیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ اکثر انسانی حقوق کی پامالیوں کا باعث بنتے ہیں۔

خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانا:

پندرہ سے انیس سال کی عمر میں خودکشی موت کی تیسری اہم وجہ ہے۔  دنیا کے تقریبا 90 فیصد نوجوان کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔  خودکشی کے رویے کے بارے میں ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے بات چیت کرنا اور جذباتی انتشار میں مبتلا رہنا ہے۔یہاں تک کہ اپنی جان دے دینا،اس عمر کے افراد میں  ابھرتی ہوئی تشویش ناک بات ہے۔

نشہ اور دیگر ادویات کا استعمال:

2016 میں دنیا بھر میں، 15 سے 19 سال کی عمر کے نوعمروں میں شراب پینے کا رجحان 13.6 فیصد رہا۔ تمباکو اور بھنگ کا استعمال اضافی خدشات ہیں۔  2018 میں کم سے کم ایک بار 15-16 سال کی عمر کے تقریبا 4. 4.7 فیصد نوجوانوں میں بھنگ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوائی ہے۔ بہت سے بالغ تمباکو نوشی کرنے والوں کو اپنی پہلی سگریٹ 18 سال کی عمر سے پہلے ہی مل جاتی ہے۔

کووڈ19سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل:

ان تمام پہلوؤں پر نظر ثانی کے بعد موجودہ حالات میں سب سے خطرناک  صورتحال کووڈ19-کی پیدا کردہ ہے۔ اضطراب اور افسردگی کی علامتوں کا پھیلاؤ نوجوانوں میں ڈرامائی طور پر بڑھ گیا ہے۔ جبکہ جزوی طور پر دنیا  میں ادارے کھولے جا چکے ہیں مگر اس کے باوجود دیگرعمر کے افرادکے مقابلے میں نوجوانوں کی  ذہنی صحت  زیادہ متاثر  نظر آتی ہے جس کی اہم وجوہات میں شامل ذہنی و جسمانی سر گرمیوں میں رکاوٹ، اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش ہے۔کوویڈ – 19 کا بحران نوجوانوں کے لئے ذہنی صحت کے بحران میں بدل گیا ہے۔

2020-21 میں نوجوانوں (15-22 سال کی عمر کے بچوں) کی ذہنی صحت میں نمایاں خرابی ہوئی ہے۔ زیادہ تر ممالک میں، اس عمرکے طبقہ میں ذہنی صحت کے مسائل دوگنا یا اس سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اس بات کو یقینی بنانا مشکل ہے کہ اس ذہنی و سماجی انتشار کے ماحول سے نکلنے کے بعد یہ نوجوان نسل پہلے سے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو بھی سکے گی کہ نہیں۔

ماہرین کے مطابق کوویڈ – 19 کے غیر یقینی صورتحال اور وسیع اثرات نے تمام لوگوں کو ایک ہی حد تک متاثر نہیں کیا۔ مارچ 2021 کی رپورٹ کے مطابق  بیلجیئم، فرانس اور ریورپ میں بڑوں کے مقابلے میں نوجوانوں 30 سے 80  فیصد سے زیادہ ڈپریشن یا اضطراب کی علامت پائی گئی ہے جس میں تنہا  رہنا  اور خود کو کمرے میں بند رکھنے جیسے عوامل شامل ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ ہر سطح پر تعلیمی اداروں کے بند ش ہے جس سے نوجوان نسل مایوسی اور غم کا شکار ہوچکی ہے۔یہاں تک اپنے ہم عمر افر اد کے ساتھ گھلنا ملنا اور ساتھ وقت گزارنا،اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرنا، بغل گیر ہونا ناگزیر ہوچکاہے۔  روز مرہ کے معمولات اور معاشرتی روابط  ذہنی و دماغی و جسمانی صحت کو برقرار رکھنے میں معاون  ثابت ہوتے ہیں۔ ہر طبقے وتعلق رکھنے والا نوجوان تعلیمی و سماجی سرگرمی کا عادی ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں جب شک اور خوف کی فضا قائم ہوچکی ہو تو جوان اذہان کا بیمار ہوجانا ایک قدرتی عمل ہے۔یہاں تک کہ نوجوانوں کا ایک طبقہ جو بیک وقت تعلیم اور  روزگار سے وابسطہ ہیں ان دنوں مشکلات  میں مبتلا ہیں۔ساتھ ہی نوجوانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو حالیہ امتحانات سے فارغ التحصیل ہوکر ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس بے وقت کی وباء نے ان کو ذہنی ومعاشی طور پر توڑکر رکھ دیا ہے جن کے اثرات  تمام عمر ان کی زندگیوں پر حاوی رہیں گے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہ طلبہ و طالبات جن کے  پیشہ وارانہ  امتحانات  ہونے والے تھے اور ان کو  مستقبل قریب میں ملک کے اہم شعبوں کی باگ ڈور سنبھالنے تھی، وہ نوجوان  اپنے آنے والے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں جو ان کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ کی مانند چاٹ رہا ہے۔

کوویڈ – 19 کے بحران نے نوجوانوں (15-24 سال کی عمر کی) کی زندگیوں کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے اور دستیاب شواہد اس عمر  کے افراد میں ذہنی صحت کے مسائل میں ایک خطرناک حد تک اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بیلجیم، فرانس اور امریکہ میں، مارچ 2021 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر، نوجوانوں کا اضطراب اور افسردگی کی علامات کا سامنا کرنا بحران سے قبل کے حالیہ اعداد و شمار سے دوگنا زیادہ تھا (امریکی مردم شماری بیورو، 2021 سائنسینسانو، 2021 سانٹا پیلیک فرانس، 2021)۔

این سی ایچ ایس کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2019تک  18-34سال تک کے افراد  میں ذہنی تناؤ کی بیماری کی شرح 10 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ  21مارچ 2021 میں جاری کردہ رپورٹ میں 10-29سال کے افراد میں ذہنی تناؤ کی شرح 43% ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح سائنس دان  2020(5}کی رپورٹ  کے حوالے سے اگر ہم دوسرے اہم خطے بیلجیئم کے بارے میں بات کریں تو اپریل 2020 کی ریسرچ کے مطابق 16-24سال کی عمر کے نوجوانوں  میں ذہنی تناؤ و افسردگی کی شرح 29% ریکارڈ ہوئی جو کہ خواتین میں تین گنا اضافہ اور2018کے مقابلے میں جوان مردوں میں چار گنا  اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

برطانیہ میں، جہاں جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک 16-39 سال کی عمر کے 11% بچوں میں افسردگی  و ذہنی  تناؤکی اطلاع ہے، جون 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 31 فیصد ہوگئی (او این ایس، 2020)

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا نوجوان نسل کو اس وباء کے منفی اثرات سے نکلنے میں کتنا وقت لگے گا؟  جبکہ ویکسین کی دستیابی نے بہت سے خطرات کو  رد کرنے میں مدد دی ہے پر کیا دنیا اسی رفتار  سے ترقی  کے راستے پر دوبارہ دوڑ پائے گی؟ کیا نوجوانوں کے نفسیاتی خد و خال میں تبدیلی رونما ہوگی؟  ایسے بہت سے سوال ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے نا صرف  گھریلو سطح پر بلکہ حکومتی سطح پر بھی نوجوانوں کے ذہنی صحت  کی بہتری کے لیے اداروں  کو کام کرنا ہوگا اور نوجوانوں  کے مسائل کو اول ترجیح دینا ہوگی کیوں کہ نوجوان ہی معاشرے کی تعمیر و ترقی کااہم جزوہیں۔