امریکہ ایک دہشت گرد ریاست

گذشتہ دنوں   31مئی کو امریکی  ریاست اوکلا ہاما       کے شہر ٹلسا میں   ہونے والے  سیاہ فامو ں کے قتل عام پر جوکہ  31مئی 1921 کو ہوا  اس واقعہ کے   سوسال مکمل ہونے پر  تقریبات ہوئیں  ۔ ایسی ہی ایک تقریب میں موجودہ صدر جیوبائیڈن  بھی شریک ہوئے ۔یہ پہلا موقع تھا کہ اس قسم کی تقرب میں کوئی  امریکی  صدر شریک ہوا ہو انہوں نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  تاریخ کے چند واقعات اتنے وحشت ناک  سفاک  ہوتے ہیں  جن  کو بھلانا ممکن نہیں  ہوتا ۔
یہ تو تھا امریکی صد ر کا بھولا پن  ،   وہ  شاید اپنی  قومی تاریخ سے نا آشنا ہیں یا جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کررہے ہیں  ویسے بھی سیکولر  ذنبیل سے جتنے بھی ڈیلے نکلتےہیں وہ تاریخ کو   توڑ مڑوڑ  کر دنیا کے سامنے پیش  کرکے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں ۔ان کی ساری عمارت جھوٹ پر کھڑی ہے  ۔بھلا کون  ساآدمی ہوگا جس کو تاریخ سے ذرا سی بھی واقفیت ہو وہ  امریکہ کی  وحشت اور سفّاکیت  سے نا آشنا ہو  ۔یہ وہ ریاست ہے جس کی بنیاد ہی لاکھوں انسانوں کے خون پر رکھی گئی ہے اور آج  تک یہی سلسلہ جاری ہے-
1442 سے پہلے  صدیوں سے آباد ریڈانڈین  امریکہ کے حقیقی باشندے  امریکہ کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور یہ حقیقت تھی   یہ سیاہ فام  ریڈانڈین  وہاں قبائل   کی شکل میں موجود تھے ۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان پر کیا افتاد سر اٹھانے والی ہے  جس کا  عرصہ کتنا طویل ہوگا جو کرسٹوفر کولمبس کے سرزمین  امریکہ میں منحوس  قدم رکھنے کے بعد شرو ع ہوگا  ۔اس کے بعد جرائم پیشہ سفید فام  یہاں لاکر آباد کئے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ  سفید فاموں کی آبادی اتنی  ہوگئی کہ انہوں نے  جرائم کی دنیا  آباد کرلی اور پھر  انہوں نے  صدیوں سے آباد ریڈانڈین کو  اقلیت میں تبدیل کرنے کا قبیح کھیل شروع کردیا   یہ کھیل  سفاکیت پر مشتمل تھا ۔جس وقت کرسٹوفر کولمبس نے امریکہ کی زمین پر قدم رکھا اس وقت  ریڈ انڈین کی تعداد سولہ کروڑ کے لگ بھگ تھی ۔قتل و غارت گری  کا بازار گرم کیا گیا   اور ایک نسلی تعصّب کا بیج بویا گیا اور  لاکھوں کی تعداد میں ریڈانڈین قتل کیے گئے  ان قبائل کو  ملک کے  ویران علاقوں کی طرف دھکیلا گیا  اور ان کے تمام قبائل کے لیے علاقے مختص کردئیے گئے  جن علاقوں میں یہ ایک قیدی کی سی  زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ۔یہ کارروائی  ایک ایکٹ کے تحت کی گئی  جو 1777 میں گوروں نے  منظور کی تھی اور   اس کارروائی  کےنتیجے میں قانون حرکت میں آیا تھا۔شہری علاقوں سے  سیا ہ  فاموں کو بدترین تشدد کے زریعے نکالا جاتا اور دور دراز علاقوں میں بھیج دیا جاتا، کتنے ہی  بھوک مقام کی شدت اور بیماری میں جان سے گئے  اور کتنے ہی  پولیس کے بدترین تشدد کے وجہ سے مارے گئے ۔اتنے پر  بس نہیں کیا گیا  بلکہ  یہاں چیچک  کے جرثومے لاکر چھوڑے گئے اور  جان بوجھ کر حفظان صحت  اور اس بیماری سے بچنے کی تدابیر نہیں بتائی گئی اور نہ ہی عمل کرنے دیا گیا     جس سے لاکھوں سیا فام موت کی نیند سوگئے ۔ریاستی سطح پر اتنی سفّاکی پر بھی بس نہیں کیا گیا بلکہ  ایسے علاقوں میں  ایسے بورڈنگ اسکول کھولے گئے جس میں سیاہ فام بچّوں اور ان کے والدین کو رکھا جاتا  تھا ان اسکولوں   کامقصد یہ تھا کہ یہ بہتر طور پر عیسائی  مذہب پر کار بند نہ  ہوسکیں یہ سکول   کیتھولک   چرچ  کے زیرانتظام تھے۔ اس طرح کے بے شمار اسکول کھولے گئے  ابھی حال ہی میں   برٹش کولمبیا  کے کیمولپس   سکول سے ایک  اجتماعی قبر دریافت ہوئی جس میں سے    225   بچّوں کی باقیات  ملی ہیں یہ بورڈنگ سکول کی اجتماعی قبر   تو  زنجیر کی ایک  کڑی ہے    کتنی ہی  قبریں   دریافت ہونی ہے  ان مظالم کی جو سفید چمڑی ،نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والے  گورے یہاں صدیوں سے کررہے ہیں ۔  اگر تاریخ    کے اوراق کو الٹ پلٹ کر دیکھا جائے تو  اس مہذّب دنیا میں معلوم ہوگا کہ سفّاکیت کی کتنی ہی داستانیں ہیں ۔امریکہ  کی بنیاد نسل کشی ہے ۔  امریکہ  کی پوری عمارت دس کروڑ ریڈانڈین کی لاشوں  پر کھڑی ہے ۔
دوسری جنگ  عظیم میں   یہ ریاست دنیا کے سامنے   سب سے بڑے دہشت گرد کے طور پر اس وقت سامنے آئی جب اس نے  اس وقت جاپان کے  پر ایٹم بم حملہ کیا جب کہ جاپان  اپنی شکست  تسلیم کرچکا تھا اور  مگر چونکہ انسانی خون  اس کی من پسند غذا ہے اس نے رات کی تاریکی میں  6 اگست 1945 کو ہیر و شیما پر  ایٹم بم گرایا اور ایک تخمینے کےمطابق  ایک لاکھ  چالیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سلادیا اور کےبعد یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ انسانی خون کی  پیاس نے اس کو 9اگست  تک بھی چین نہیں لینے دیا اور اسی رات دوسرے شہر ناگا ساکی پر بھی دوسرا ایٹم بم گرایا جس سے 74 ہزار لوگ موت کی نیند سوگئے  اور نا معلوم کتنے افراد ان حملوں سے زخمی ہوئے  اور ایک عرصہ دراز تک اس کے تابکار اثرات  سے تمام جانداروں اور ماحول  متاثر ہوتے رہے ہیں اور آج  75 سال ہونے کے باوجود انسانیت کے جسم  کے اس زخم سے خون رس رہا ہے ۔
1959میں  اس عالمی دہشت گرد نے  پانچ لاکھ  فوجیوں کے ساتھ ویت  نام  پر چڑھ دوڑا اور  ایک تخمینے کے مطابق گیارہ لاکھ  شمالی ویت نام میں انسانوں کو اپنی درندگی  کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا   یہ جنگ 1975 تک جاری رہی اور بالاآخر   ویت نام کے دو ٹکڑے کرکے وہاں سے   اسے ذلّت کے ساتھ نکلنا پڑا ۔
اس کی تجارت  اقوام کے درمیان جنگیں کرانا اور اپنے ہتھیار دونوں فریقوں کو فروخت  کرنا جنگ کو طول دینے کے لیے دونوں  فریقوں کو ایک دوسرے کے خلاف  بھڑکاتے رہنا۔  امریکہ  نے عراق کے خلاف ایک جھوٹ گھڑا  کہ عراق کیمیائی ہتھیار موجود ہیں  اس جھوٹ کو  بنیاد بناکر جنگ کا آغاز کیا جس میں  لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دئیے گئےمگر اس بات کا کوئی ثبوت آج تک نہ ملا کہ  عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں  ۔اس سے پہلے  ٹوئن ٹاور پر حملے کا الزام القاعدہ اور اسکے  سربراہ اسامہ بن لادن پر ڈال کر پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان پر  حملہ آور ہوا اکیس سال کی اس جنگ میں  افغانستان پر لوہے اور بارود کی بارش ہوتی رہی جس کے نتیجے میں لاکھوں افغان  موت کی نیند سلادئیے گئے  ۔ مگر وہاں سے اسامہ بن لادن نہ ملے ۔اور نہ ہی ملّا عمر  ۔ مگر پورے افغانستان کو 48  ممالک کی کیل کانٹے سے لیس افواج کے ساتھ  کھود ڈالا گیا  وہاں امریکہ  بالواسطہ یا بلاواسطہ موجود ہے اور اپنے ہتھیار کی تجارت کر رہا ہے ۔

تاریخ  نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ  کفر  کی دنیا چاہیے کتنی بڑ ی سپر پاور کے شکل میں موجود ہو اگر اس کو ناک سے چنے چبوانے کی صلاحیت ہے تو وہ ہے جذبہ جہاد میں ہے  اس  کا اوّل تو انبیا ءکی جدوجہد ہے  اور امام المجاہدین  سیدالاانبیا ء ﷺ  کا میدان  بدر سے شروع ہونے والا  معرکہ ہے جوکہ  رومی اور قیصر  کی شکست سے گزرتا ہوا آج دور حاضر میں 60 ہزار طالبان  سے امریکہ اور 48 ممالک کی ٹیکنا لوجی سے لیس فوجی قوت ہے ؎ مگر یہ  اپنی دم دبا کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہے۔بے شک فتح  غلامان مصطفٰے کا اور شکست  امریکہ اور اس کے حواریوں کا نصیب ۔