قدرتی وسائل کا تحفظ کیسے ممکن ہے

مذہب اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس سے وابستہ تمام امور کو کار خیر قرار دیتا ہے۔ اس دین فطرت نے عوام الناس کے وجدان اور شعورحیات میں انقلاب برپا کرتے ہوئے نہ صرف اس دور کے مسائل بلکہ آنے والے تمام زمانوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے راہ ہموارفرما دی۔ یہی وجہ ہے کہ خلفاء راشدین اور ان کے ما بعد بنو امیہ ،بنو عباس کے ادوار میں بلکہ مسلمان جہاں بھی فاتح بن کرگئے انہوں نے وہاں کے قدرتی وسائل کو تحفظ دیا اور بلا لحاظ مذہب و ملت عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا۔زرعی اصلاحات، سیلابی پانی کی روک تھام ، بنجر اور بے آباد زمینوں کی کاشتکاری و شجر کاری سے علاقوںکو سر سبز شاداب بنایا گیا ، حوض نہروں کی کھدائی پلوںاور سڑکوں کی تعمیر سے عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ خطہ ارضی کو سنوارا گیا ۔ مسلمان سپین گئے تو زراعت کے جدید طریقوں کو اپناتے ہوئے دوسرے پھلوں اور اشجار کے علاوہ چاول، خوبانی ، انار ، کھجور ،نارنگی ،روئی اور زعفران کی کاشت سے علاقے کو متعارف کروایا۔ اسے باغات ، چشموں ، جھرنوں ،آبشاروں اور نہروں سے سجا کر لا فانی عطیہ عطا کیا ۔
برصغیر پاک و ہند میں مسلم دور کی یاد گار باغات آج بھی موجود ہیں جو تحفظ ماحولیات کے سلسلے میں ان کے کار خیر پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں ۔ قرآن حکیم کائنات اور اس کے جملہ رموز پر غور و فکر کر نے کی دعوت دیتا ہے ۔ عربوں نے جب قرآن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایاتو کرہ ارض اور اجرام فلکی کی ماہیت کو جا ننے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے ۔ مامون الرشید کے دور میں کرہ ارض کے محیط کی تحقیق کے لیے متعدد تجربات کیے گئے۔ علم ہیت میں حیرت انگیز ترقی کے لیے شماسمیہ کے مقام پر دنیائے اسلام کی پہلی رصد گاہ قائم کی گئی جس کے ذریعے سورج ، چاند ، سیاروں اور دیگر کواکب کے حالات معلوم کیے جاتے ۔ مسلم ہیت دانوں کی جانفشانی کی بدولت آسمان پر دریافت ہونے والے ستاون ( ۵۷) ستاروں کے نام عربی زبان میں ہیں ۔ مثلاََ،الدیران ،الفرد،منقار، سہیل وغیرہ ۔ اس طرح ہمارے تحفظ ماحولیات کے حوالے سے ہمارے اجداد کی کاوشیں بہت مثبت اور حوصلہ مند رہی ہیں ۔
اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں جا بجا اور سورہ الرحمن میں خاص طور پر انسان کے لیے کرہ ارض ،کرہ آب اور کرہ باد میں مہیا کردہ نوازشات اور نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ اگر آج کی دنیا پر نظر دوڑائیں تو سائنسی تحقیق نے بھی انسان کو یہ باور کروا دیا ہے کہ فطرت کی عظیم لیبارٹری نے جس طرح بے شمار وسائل ہمارے لیے زمین پر بکھیر دئیے ہیں اسی طرح زیر زمین بھی بیش بہا عناصر خام مال کی صورت میں جمع کر رکھے ہیں ۔ یہ عناصر جو بہت کار آمد ہیں صدیوں کے عمل سے صدیوں پہلے تخلیق ہوئے۔گزشتہ ڈیڑھ صدی سے صنعت و حرفت میںجدیدترقی کے خواہاں انسان نے ان عناصر کو بے دریغ استعمال کرنا شروع کیا۔ قدرت کے عطا کردہ توانائی کے ذرائع کوئلہ،تیل، گیس اور لکڑی ہیں جو آج مشرق و مغرب میں نہایت برق رفتاری سے خرچ ہو رہے ہیں ۔ ان ذخائر کے خاتمے کے بعد انہیں دوبارہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ مثلاََ دنیا میں میلوں پھیلے جنگلات تیزی سے کا غذ میں تبدیل ہو رہے ہیںمگر کوئی طریقہ ایسا نہیں کہ کاغذ کو واپس جنگلات میں تبدیل کیا جا سکے۔ اسی طرح ایک طرف ان کے استعمال کے غلط طریقوں سے ایسی باقیات جنم لے رہی ہیں جس سے اس کرہ ارضی کا چہرہ مسخ ہو رہا ہے ۔
ماہرین ہیت و ارضیات کے نزدیک آج کی دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک اہم ترین چیلنج ہے۔یہ عمل ہوا ، مٹی ، پانی اور نباتات کی طبعی ، کیمیائی،حیاتیاتی خصوصیات میں عدم توازن اور محض تبدیلیاں پیدا کرنے کے باعث ہوا۔ گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے منفی اور مضر اثرات قدرت کے اجزائے ترکیبی میں خلل ڈالنے کے باعث مرتب ہوئے اورآبی ، زمینی اور فضائی آلودگی کا باعث بنے ۔ معاشی اور اقتصادی ترقی کی دوڑ میں صنعتی عمل ، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے خارج ہو نے والے کیمیائی مرکبات اور ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ایسے مرکبات بناتے ہیں جسے سموگ کہتے ہیں ۔گرمی حدت اور موسمی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا بھر میں گلیشئر پگھل رہے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق اگر گلیشئر پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو گلیشئر چند سالوں میں ختم ہو جائیں گے ۔ سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے ۔ کرہ ارض پر اوزون کی تہہ میں سوراخ کی دریافت ہو چکی ہے ۔جنگلی و آبی حیات معدوم ہو رہی ہے ۔پود ے ،درخت اور فصلیں گندے پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔ پانی قدرت کے دئیے ہوئے اس تحفے کو بھی قابل استعمال نہیں رہنے دیا گیا ۔ گندے پانی کو ندی ، نالوں اور دریائوں میں بہا دیا جاتا ہے ۔ فیکٹریوں اور صنعتوں کے پیداواری عمل سے خارج ہونے والے آبی اور ٹھوس فضلات کودریائوں اور آبی وسائل میں شامل کر دیا جاتا ہے جو سمندر تک پہنچ کر آبی حیات کو شدید متاثر کر رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دریائے راوی کا روزانہ تقریباََ ۲۱۲ ملین گیلن گندا پانی شامل ہو رہا ہے ۔
ترقی کے بڑھتے ہوئے معیار کو قائم رکھنے ، کم محنت کر کے سہل ، پر لطف اور پر آسائش زندگی گزارنے کی خواہش ، سرمایہ درانہ نظا م کے ظلم اور صنعتکاروں کے حریفانہ اقدامات نے ماحولیا تی آلودگی کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ایک طرف تو نسل انسانی تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے اور دوسری طرف کرہ ارضی پر حیات و زندگی کے آثار معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ آج کا دور ہمارے لیے لمحہ فکریہ کہ ہم نے اللہ تعالی کی عطا کردہ خوبصورت ارضی و سماوی نعمتوں کو اپنی حریفانہ کاوشوں سے آلودہ کر دیا اور اس خوبصورت بزم رنگ و بو کو شہر خموشاں میں تبدیل کر دیا ۔ ما حولیات کا تحفظ اور قدرتی نظام توازن کی بحالی کرنا آج کے انسان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔حیوانات، آبی حیات ، نباتات و اشجار ابتدائے آفریش سے انسان کے ساتھی ہیں ۔ ان کی حفاظت کا اہتمام کرنا انسان کی ذمہ داری ہے ۔ان حالات میں اگر ہم اسلامی اصولوں اور ضابطہ حیات کو اپنائیں تو ماحولیاتی آلودگی کے بہت سے مسائل نبرد آزما ہو سکتے ہیں ۔ اشجار کی حفاظت کا اہتمام اسلام نے ہی سکھایا ہے ۔ یہاں تک کے دشمن کے علاقے میں بھی ان کی حفاظت کا حکم ہے ۔ شجر کاری صدقی جاریہ ہے ۔ اگر اس پر ہم عمل کر لیں تو ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں ۔