سانحہ بحریہ ٹاون, قصور وار کون؟؟

دعا یہاں ہے غم کس کس کی باتوں میں
خواب کی راکھ بچی ہے جل کر ہاتھوں میں
ہوا ہے جل کر سب کچھ خاکستر اب تو
راکھ پہ پہرہ کوئی نہ دے گا راتوں میں
حقوق کی جنگ میں آئے روز ہونے والے توڑ پھوڑ، گھیراؤ،جلاؤ کے واقعات پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم کسی بھی معاملے میں حقائق جانے بناء ہی سڑکوں پر آجاتے ہیں اور وہ معاملات کہ جن کے لیے عدالت کا دروازہ کٹھکٹھایاجا سکتا ہے انہیں بھی ہم توڑ پھوڑ ، احتجاج اور قومی امالک کو نقصان پہنچاکر حل کرنا چاہتے ہیں۔گذشتہ روز بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہونے والااندوہناک سانحہ ہماری سوچ و فکر کا ایسا نوحہ ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کسی بھی طبقے پر ظلم و زیادتی روا رکھی جانا قابل تعریف عمل نہیں۔سانحہ بحریہ ٹاؤن کے پس منظر میں جو بھی واقعہ ہوگا۔ ایک بات بالکل واضح ہے کہ مشتعل ہجوم نے بحریہ ٹاون جیسے بپْر امن علاقے میں گھس کر کھربوں روپے مالیت کی عمارات ، گاڑیاں ،موٹرسائیکل و دیگر سامان جلا کرخاکستر کر ڈالا۔کسی بھی ادارے یا منصوبے کو بنانے اور پایہ تکمیل تک پہنچنانے کا عمل سالوں تک محیط ہوتا ہے۔ کوئی بھی گھر ،دکان ، پلازہ یا کوئی اور عمارت آنکھ جھپکتے میں تیار نہیں ہوجایا کرتی۔ہم کتنے بد بخت لوگ ہیں کہ ہمارے نزدیک اپنے معمولی سے حق کے لیے بھی دوسرے کی کھربوں روپے کی املاک اور دیگر آثاثے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔دنیا کے کسی بھی ملک اور معاشرے میں اس قسم کے واقعات دیکھنے میں نہیں آتے جیسے کہ ہمارے ملک میں کیا جا رہا ہے۔قانوں ہاتھ میں لینا اور انصاف کے نام پر ان لوگوں پر ظالم ڈھانا کوئی قابل تعریف عمل نہیں۔شنید ہے کہ بعض لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کیلیے جو کارروائی بعض لوگوں کی طرف سے کی گئی اس کے ردعمل میں اس بستی کو آگ اور خون کے شعلوں کی نذر کردیا گیا کہ جس کے مکینوں کا کسی بھی ظم و زیادتی میں کوئی رتی برابر قصور نہیں تھا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ”مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو ایزا نہ پہنچے”لیکن بحیثیت قوم ہم اس قدر اخلاقی پستی اورگروٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے فیصلے خود ظلم اور تشدد کے ذریعے سڑکوں پر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ہمارا یہ عمل بلا شبہ اللہ اور اس کے رسول کی نا راضگی ہے۔
میں اس سے پہلے گاؤں میں رہتی تھی۔تقریباً 10ماہ قبل بچوں کی اچھی تعلیم کی خاطر میں نے گاؤں کو خیر باد کہا اور کراچی شفٹ ہو گئی گاؤں چھوڑتے وقت سب سے پہلے میرے ذہن میں ایک ہی نام آیا ”کراچی بحریہ ٹاؤن”جو میری نظر میں ہر لحاظ سے محفوظ تھا یوں میں 15 اگست 2020 ء کو بحریہ ٹاون میں شفٹ ہو گئی۔میری نظر میں بحریہ ٹاؤن ہر لحاظ سے محفوظ رہائشی منصوبہ ہے۔ پاکستان کے حالات سے کون واقف نہیں ہے؟ یہاں آئے دن لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔۔ کبھی کہیں کسی بچی کے ساتھ زیادتی تو کہیں چوری اور قتل و غارت گری معمول کے واقعات ہیں۔
میں نے بحریہ میں رہتے ہوئے ہر لحاظ سے خود کو اور بچوں کو محفوظ پایا۔ بچے بحریہ اسکول ہی میں زیر تعلیم ہیں، وہاں کا اسٹاف، پڑھائی، ڈسپلین مجھے کہیں بھی کوئی خامی نہیں نظر آئی۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ یہاں اکیلی رہتی ہوں مگر کبھی کسی بات کا ڈر محسوس نہیں ہوا کہ بچے اکیلے پارک میں کھیلنے چلیں جائیں یا مارٹ بازارچلے جائیں، کبھی کوئی خوف دل میں نہیں آیا۔پاکستان کے بڑے بڑے ہاسپٹلزمیں اورایمرجنسی کی صورت مریضوں کو جس تکلیف دہ ماحول سے گذرنا پڑتا ہے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں آپ بحریہ کے ہاسپٹل میں رات تین بجے بھی چلے جائیں تو آپ کو فوری ٹریٹمنٹ ملتا ہے
یہاں کا سیکیورٹی سسٹم بھی بہترین ہے آپ کی ایک کمپلین پر اگلے دس منٹ میں سیکیورٹی آپ کے دروازے پر ہوتی ہے
۔میں مانتی ہوں کہ ملک ریاض کوبھی کچھ مسائل کا سامنا ضرور ہوگالیکن ہاؤسنگ کے شعبے میں اس بات کا کریڈٹ ملک ریاض کو،ہی جاتا ہے کہاں انھوں نے پاکستان جیسے ملک میں ہاؤسنگ کے بے شمار اعلیٰ معیار کے منصوبے شروع کئے اور لوگوں کو رہنے کیلئے محفوظ کالونی بنا کر دیں کہ جہاں کے مکینوں کو کم از کم آدھی رات کو باہر نکلتے وقت بھی کسی قسم کا ڈریا خوف نہیں ہوتا کہ کہیں ہمارے ساتھ کوئی برا سانحہ رونما نہ ہوجائے۔میری اسٹریٹ میں کتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں ایک اکیلی عورت رہتی ہے اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے ملک میں اور وہ بھی ایک اکیلی عورت بنا کسی ڈر خوف کے رہ کیسے سکتی ہے
پاکستان جیسے ملک میں بحریہ ٹاون اس خواب کی طرح ہے کہ جس کی تعبیر بھی دنیا کے سامنے ہے۔اگر کسی گروپ کی طرف سے بعض لوگوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ،ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اگر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے تو یہ انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔بحریہ ٹاؤن کے مکین خود کو ہر لحاظ سے محفوظ سمجھتے ہیں۔لیکن آج اس وقت دل خون کے آنسو رویا ،جب بعض ناپسندیدہ عناصر نے سال ہا سال کی محنت ،منصوبہ بندی اور کھروبوں روپے کی سرمایہ کاری سے تعمیرکئے جانے والے منصوبے کو ایک دن بلکہ ایک ہی لمحے میں تباہ و برباد کر دیا گیا۔
اور سننے میں یہ بھی آیا اب اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ اللہ جانتا ہے کہ
کہ شر پسند عناصر کا یہ کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کریں گے اور ان کی گاڑیاں جلائیں گے میرا ان سے یہ سوال ہے کہ یہاں کے مکینوں کا کیا قصور ان کے من میں یہ ڈر کس لیے پیدا کیا گیااس سانحہ کے پس منظر میں اصل تنازعہ کیا ہے؟ کیا نہیں؟ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی لیکن جو کچھ 6 جون کو کچھ شر پسند عناصر نے مل کر کیا ہے وہ سرا سر زیادتی ہے۔ اگر متاثرین کو کسی قسم کی زک پہنچی تھی تو اس کابہترین طریقہ یہی تھا کہ اس معاملے میں حصول انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کٹھکٹھایا جاتا۔اس کے برعکس قانون ہاتھ میں لے کر بنک لوٹی گئیں گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کو جلا دیا گیا۔ آفسز سے فائلز تک کی چوری کی گئی اور کیش بھی چرا لیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی املاک اور گاڑیاں و موٹرسائیکل جلائے گئے، ان کا کیا قصور تھا؟ ان کا کس لیے اتنا نقصان کیا گیا؟ پرتشدد کاررائیوں کے دوران اسلحہ تک ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیکھا گیا۔انسان کو اتنا بھی وحشی اوراندھا نہیں ہونا چاہیے کہ دوسروں کی جانیں لینے پر تل جائے اور قیمتی آثاثوں کوہی نذر آتس کر دیا جائے۔، اتنی تباہی آخر کس لیے؟ کیا اس سے متاثرین کانقصان پورا ہوگیا؟کس کو کیا فائدہ ملا؟؟ کیا متاثرہ افراد کو اپنے اس عمل سے انصاف مل گیا ہے یا ان کا مسئلہ حل ہوگیاہے؟۔اس سانحہ کے بعد کہا جارہا ہے کہ کچھ خواتین کو گڈاب
تھانے میں رکھا گیا ہے میرا ان بہنوں سے ایک ہی سوال ہے کہ عورت کا کیا کام ہے مردوں کے ساتھ مظاہروں میں جانے کا ، عورت گھر کی چاردیواری ہی میں اچھی لگتی ہے۔ عورتیں کورٹ کچہریوں میں نہ ہی جلسے جلوسوں اور توڑ پھوڑ میں اچھی لگتی ہے ۔ ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ جب پہلے سے یہ بات طے تھی کہ صرف مظاہرہ کریں گے تو اتنی تباہی مچانے کی نوبت کس لیے آئی۔؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت اور انتظامیہ ٹھوس حکمت عملی اپنائے۔ظلم و زیادتی کسی کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہئے۔واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جانا چاہئے اور فریقین کے ساتھ ہونے والے ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا جائزہ لے کر ان کی داد رسی پر توجہ دینا ہوگی۔بحریہ ٹاؤن کراچی میں لوگوں کا کھربوں روپے کا نقصان کیا گیا ہے۔کسی ایک بندے کے جرم کی سزا بیسیوں لوگوں کو دینا یہ انصاف نہیں ہے۔ہمیں چاہئیے کہ ظلم و زیادتی کے واقعات میں ہم ہوش کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔اور معاملے کا حل مل بیٹھ پر نکالنے کی راہ ہموار کریں۔کیونکہ جذبات میں آکر کسی بھی اجنبی کے قیمتی آثاثوں کو آگ کی نذر کرنا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے اس کا حساب اگر دنیا میں نہ بھی دیا جا سکا تو روز محشر ہمیں ضرور دینا ہوگا۔