تصوف کا مفہوم ( دوسرا اور آخری حصہ)

تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی؟عہد صحابہ میں تصوف کی روح اور حقیقت، یعنی زہد وتقویٰ انابت الی اللہ، عاجزی وانکساری وغیرہ روحانی اور باطنی صفات تو پائے جاتے تھے، لیکن اس لفظ کا استعمال عہد صحابہ تک نہیں تھا، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے ابو الحسن بوشنجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ تصوف موجودہ زمانے میں صرف ایک نام ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور گذشتہ زمانے میں ایک حقیقت تھی جس کا کوئی (مخصوص) نام نہ تھا، یعنی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے وقت میں لفظ صوفی تو بے شک نہیں تھا لیکن اس کی حقیقی صفات ان میں سے ہر ایک میں موجود تھیں اور آج کل یہ نام تو موجود ہے لیکن اس کے معنی موجود نہیں، اْس زمانے میں معاملات تصوف سے آگاہی کے باوجود لوگ اس کے مدعی نہ ہوتے تھے؛لیکن اب دعوی ہے، مگر معاملات تصوف سے آگاہی مفقود ہے۔

مزید پڑھیے : تصوف کا مفہوم ( پہلا حصہ )

(گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب )شیخ ہجویری کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تصوف کی حقیقت موجود تھی، لوگوں میں زہد وتقوی، خشوع وخضوع ، فکر آخرت اور خوف خدا جیسی صفات تھیں اور ان صفات کے متصف حضرات عابد اور زاہد کہلاتے تھے، لیکن تصوف کا لفظ اس وقت رائج نہیں ہوا تھا۔

بقول امام ربانی مجدد الف ثانی ’’تصوف کا تعلق احوال سے ہے‘ زبان سے بیان کرنے والی چیز نہیں‘‘ مگر جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے‘ صحیح اسلام ی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حیثیت سے علمی حلقوں کو روشناس کرانا بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل جس چیز کو تصوف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پیش کیا جاتا ہے اس کا اسلامی تصوف سے دور کا تعلق بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحیح اسلامی تصوف کو بھی شک و شبہ کی نظر دے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ عام المسلمین کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرایا جائے۔

جس کی اساس کتاب و سنت پر ہے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی فکری اور عملی اصلاح کر کے ابدی فلاح حاصل کر سکیں۔تصوف وہ علم ہے جس کے متعلق حضرت علامہ اقبال نے نظم و نثر میں اپنے ناقدانہ خیالات کا مفصل اظہار کیا اور وہ فرماتے تھے ’’میرا فطری اور آبائی رجحان تصوف کی طرف ہے۔ ‘‘ تصوف کی اصلاح اور ملت کے احیا کی خاطر اس پر بے دریغ تنقید کی۔

حضرت شاہ ولی اللہ نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ تیسرا فن مقاصد شرعیہ کے ماخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لئے اس فن کی وہی حیثیت ہے جو جسم کے لئے روح کی ہے اور لفظ کے لئے معنی کی ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ تصوف کے بغیر نہ شریعت زندہ رہ سکتی اور نہ دین سلامت رہ سکتا ہے۔

لتصوف کے باب میں امام غزالی فرماتے ہیں ’’جیسی باقی علوم فرض ہیں اسی طرح علم سلوک بھی فرض ہے جو علم احوال قلب ہے جیسے توکل‘ خشیت‘ رضا باالقضاء۔دراصل اہل تصوف ہی اہل اللہ ہوتے ہیں:(۱) اولیاء اللہ کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کا ایک مجرب ذریعہ ہے۔(۲) اولیاء اللہ کے پاس کامیاب نسخہ ذکر الٰہی کی تلقین اور اس کا طریقہ سکھانا ہے۔(۳) ذکر الٰہی کی کثرت اور اولیاء اللہ کی صحبت سے انسان کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ کبھی بدبخت ہو کے نہیں مرتا۔(۴) اولیاء اللہ سے دشمنی خدا سے دشمنی ہے۔

علامہ اقبال قرآن مجید کی ابدی حقیقت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ کوئی نظریہ یا عقیدہ یا فلسفہ یا قانون یا کوئی ضابطہ حیات جو قرآن مجید کی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی مختلف ہوتا ، وہ اسے نہایت جرات کے ساتھ مسترد کردیتے تھے۔ انہوں نے فلسفہ اور تصوف کے ان تمام مسائل اور نظریات کو جو حریم اسلام میں بعض عقبی دروازوں سے داخل ہوگئے تھے ساقط الاعتبار قرار دیا۔

تیرہویں صدی میں جب عالم اسلام پر چنگیز اور ہلاکو کے تباہ کن حملے ہوئے اور اسلامی معاشرہ جو فکری انتشار کا پہلے سے ہی شکار تھا، ذوق عمل سے یکسر محروم ہوگیا اور شکست خوردہ ماحول کے خلاف جلال رومی ایک زبردست ردعمل کے طور پر اٹھا۔ اس نے قرآن کی روح پرور تعلیمات کے مطابق زندگی کو عمل ، حرکت اور جہاد سے تعبیر کیا۔ ایک روشن اور بلند نصب العین کے حصول کے لیے دلوں میں تڑپ پیدا کی اور سخت کوشی کی تعلیم دی۔ عزت و عظمت کا درس دیا، یونانی حکمت کو بے معنی ثابت کیا اور ترک دنیا کو اسلام کے منافی قرار دیا اور کہا:بیسویں صدی میں علامہ اقبال کو بھی رومی جیسے دور سے گزرنا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے کہا ’’ آ ج دنیا کو کسی رومی کی ضرورت ہے جو امید کی شمع جلائے اور زندگی کے لیے آتش شوق فروزاں کرے۔‘‘