تصوف کا مفہوم ( پہلا حصہ )

تصوف کیا ہے ؟ تصوف کا اصل مادہ صوف ہے ،جس کا معنی ہے اون۔ اور تصوف کا لغوی معنی ہے اون کا لباس پہننا ،جیسے تقمص کامعنی ہے قمیص پہننا۔ (کشف المحجوب)لیکن صوفیاء کی اصطلاح میں اس کے معنی ہیں اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں ا وررذائلِ اخلاق سے پاک وصاف کرنا اور فضائلِ اخلاق سے مزین کرنا۔

(تاریخ تصوف)’’تصوف‘‘ اصل میں اخلاق کی پاکیزگی ،باطن کی صفائی،آخرت کی فکر،قلب کی طہارت اور دنیاسے بیرغبتی کا نام ہے ۔تصوف بندہ کے دل میں جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت اور رسول اللہؐ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتاہے، وہیں تحمل ،برداشت، حسن اخلاق،رواداری اور خدمت خلق کی طرف بھی انسان کو راغب کرتا ہے۔تصوف کے کئی نام ہیں (۱)علم القلب (۲)علم الاخلاق (۳) احسان وسلوک (۴)تزکیہ و طریقت وغیرہ۔

قرآن و حدیث میں اس کے لیے زیادہ تر ’’احسان ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن ان تمام ناموں کا مطلب اور مفہوم ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے نفس کو ’’اخلاق حمیدہ ‘‘سے مزین کرنا اور’’ اخلاقِ رذیلہ ‘‘سے پاک و صاف کرنا۔قرآن و سنت سے ہم آہنگی: تصوف اسلام کے جمالی پہلو کا ترجمان ہے اور اس کے ذریعے بعض اوقات اسلام کی شانِ جمال کا بھرپور ظہور ہوا ہے، اس کا تابناک اور روشن حصہ وہ ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ یا ہم آہنگ ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صادقین، قانتین، مخلصین، محسنین، عابدین، خاشعین، متوکلین، صابرین، اولیاء ، ابرار وغیرہ ناموں سے اپنے نیک اور صالح بندوں کا ذکر کیا ہے۔ صدق، اخلاص، احسان، عبادت، خشوع و خضوع، فقر، توکل، صبر، شکر چونکہ صوفیا کی صفات ہیں ، اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ صوفیہ معنوی طور پر ان میں شامل ہیں۔ اسی طرح قرآن میں توبہ، انابت، اخلاص، صبر، شکر، رضاء ، توکل، قرب، خوف ، رجاء، مشاہدہ، یقین وغیرہ کی تعریف آئی ہے، یہی چیزیں تصوف میں احوال یا مقامات کہلاتی ہیں ، علاوہ ازیں قرآن میں دنیوی زندگی کو لہو و لعب اور دھوکے کی پونجی کہا گیا ہے، یہ چیز تصوف کی اساس ہے اور قرآن حکیم میں اخلاق حسنہ پر خاص زور دیا گیا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ تصوف حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے۔

احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صدیقین، صالحین اور دوسرے ناموں سے مردانِ خدا کی تعریف کی گئی ہے، اس کے علاوہ ارشادات نبویؐ میں صدق، اخلاص، فقر، توکل اور صبر جیسے قلبی اور روحانی اعمال کی تاکید آئی ہے، نیز سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق عالیہ کو ممتاز مقام حاصل رہا ہے، خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ جس طرح تمام مسلمانوں کیلیے اسوہ حسنہ ہے اسی طرح صوفیہ کیلئے بھی سرچشمہ ہدایت ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال یا احوال و مقامات کیلئے سنت رسول ؐسے دلیل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تصوف کی متعدد کتابوں میں صحیحین کی حدیث جبرئیل کو سلوک کی اساس مانا گیا ہے۔ اس حدیث میں اسلام، ایمان اور احسان کو دل نشیں اور موثر انداز میں سمجھایا گیا ہے۔

حدیث جبرئیل میں احسان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھتے ہو تو کم از کم یہ سمجھ لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: خوب سمجھ لو دین کی بنیاد اور اس کی تکمیل کا انحصار فقہ‘ کلام اور تصوف پر ہے اور اس حدیث شریف میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد فقہ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد عقائد ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مراد تصوف ہے جو صدق دل سے توجہ الی اللہ سے عبارت ہے۔

مشائخ طریقت کے تمام ارشادات کا حاصل یہی احسان ہے کیونکہ کوئی عمل بغیر اخلاص نیت کے مقبول نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ تیسرا فن مقاصد شرعیہ کے ماخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لئے اس فن کی وہی حیثیت ہے جو جسم کے لئے روح کی ہے اور لفظ کے لئے معنی کی ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ تصوف کے بغیر نہ شریعت زندہ رہ سکتی اور نہ دین سلامت رہ سکتا ہے۔