کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اس نے کہا اللہ میرا حال دیکھ 

ندا آئی اپنا نامہ اعمال دیکھ

ہمیں احتساب کی ضرورت ہے ہر مسلمان کو اپنا احتساب مطلوب ہے اور حکمرانوں کو تو اور بھی زیادہ خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے ۔ کتنے ظلم کی بات ہے انسانیت کا دم بھرنے والے بین الاقوامی ادارے ، دیگر تنظیمیں اور خود 57اسلامی ممالک کے عوام اور سربراہ پوری دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے مسلمان کہاں سورہے ہیں کیا کر رہے ہیں کیا تم مظلوموں کے لئے نہ اٹھو گے ؟ ظلم کو جاری رہنے دو گے روکو گے نہیں ؟ کیا خاموش تماشائی بنے رہو گے؟ اللہ تو تمہاری نیتوں کو تک جانتا ہے۔

یہ با ت تم بھی اچھی طرح جانتے ہو ! تمہارے لئے تو تمہارا ضمیر ہی کافی ہے ۔ اتنے مقدس مہینے میں عبادت گاہ میں گھس کر ہزاروں فلطسینیوں کا یوں قتل عام کیا معمولی بات ہے ؟ جب مصر کےاسپتال کا ایک لاغر شاعر بستر مرگ پر اپنے کام سے غافل نہیں کہ فلسطینیوں کےمستقبل کے تحفظ کے لئے “لا تصالح” (صلح مت کرنا) جیسی نظم لکھ کر عربوں کو جھنجوڑسکتا ہے کہ بلاد عرب میں لا تصالح کا نوحہ بچے بچے کی زبان سے ایسے ادا ہوا کہ نصف صدی تک کس حکمران کو جر أت نہ ہوسکی تھی اور لاتصالح کے الفاظ و اشعار ایک استعارہ ہی نہیں بلکہ بلند بانگ نعرہ دوبارہ لگا رہے ہیں اور آزادی کی شمع کو روشن رکھنے کیلئے آج بھی دشمنوں کے خلاف، اسرائیلیوں کے خلاف مزاحمت پیش کر رہے ہیں۔ تو پھر حکمرانوں کا کردار کتنا مضبوط اور فوری ہونا چاہئے ۔

آج بھی بے کس اور بے بس فلسطینیوں کے شہداء کا خون پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ “صلح نہ کرنا ” تو پھر اے 57ممالک کے حکمرانوں” آپ کب اپنا رول نبھائو گے؟ کیونکہ اسرائیلی یہودی کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے ۔ انکا فساد فی الارض ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر چپ کیوں ہیں ؟ ہم میںاتحاد کی کمی کیوں ہے ؟ اصل کمزوری کیا ہے؟ سوچیں مانیں ! مسلمانوں ہماری اصل کمی ہی ہماری کمزوری ہے اور وہ اصل کمزوری ہمارے “بے حمیت “حکمران ہیں ہم خود ہی منتخب کرکے لاتے ہیں ۔

یہی وہ مسلم حکمران ہیں تقریباً سارے کے سارے ہی حکمران جو مسلم حکمران کہلاتے ہیں ۔ غیروں کے ہاتھوں مہرے بنے ہوئے ہیں لہٰذا اپنی غلطیوں کا ادراک ہی نہیں جب رب نے کہہ دیا کہ وہ تمہارے دوست نہیں تو ان کو اتنا کیوں خاطر میں لاتے ہیں ۔ غلطی تو ہم سب سمجھتے ہیں مگر مانتے نہیں یہی تو بے وقوفی ہے جس کا فائدہ وہ اٹھا رہے ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جہاں مسلمان پٹ رہے ہیں پیٹے جا رہے ہیں تو وہ خوش ہو رہے ہیں اب ان کی انسانیت سو رہی ہوتی ہے ؟ انسانیت کے علمبردار ، انسانیت کا دم بھرنے والے اب کہاں ہوتے ہیں ؟ تو ہم مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے ہیں ۔ بجائے خود ناکام ہو کر انہیں خوش ہونے کا موقع دینے کے ہم انہیں ہر گز اپنا دوست نہ بنا کر اپنا مقصدِ حیات یاد رکھتے ہوئے کام کریں ، مخالفت کریں ، مزاحمت کریں ظاہر ہے جب یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں نہ ہو سکتے ہیں جب رب نے فرما دیا تو ہمیں سمجھ جانا چاہئے ان کی کامیابی سے دنیاوی ترقیوں سے مرعوب ہو کر ان کے مہرے بننے کی قطعی ضرورت نہیں ۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی سی پہچان بنائیں متحد رہیں آپس میں اختلافات کرکے اپنے آپ کو کمزور نہ بنائیں ۔ آج دو ڈھائی ارب مسلمان ہو تے ہوئے بھی ان کے سامنے ڈٹنے کی ہمت کیوں نہیں ؟ ہر اسلامی ملک ایسا رویہ دکھا ئے کہ کسی کو بھی کسی غریب اور کمزور ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہو مگر اس کیلئے مسلمان خود متحد ہو کر کردار کے غازی تو بنیں ! وقت ضرورت پر بھی اگر متحد نہ ہوئے منظم ہو کر ظلم کا ہاتھ نہ روکیں تو تُف ہے ہماری زندگیوں پر !! پھر تو ہماری دعائیں بھی کیسے قبول ہونگی ۔ آج کرونا کا سامنا ہے اس کو ہم عذاب الٰہی نہیں سمجھ رہے ۔ اپنی ڈگر نہیں بدل رہے ۔ مغربی تہذیب کے دلدادہ، فحاشی بے حیائی کے اپنانے والے بھلا کیسے دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں ؟ جان کی بازی، مال کی بازی لگاسکتے ہیں ؟ مسلمان تو کبھی بزدل اور سست نہیں ہوتا ، ظلم کو روکنے سے نہیں رکتا تو آج کیا ہوا ہے ؟ فلسطینی مسلمان ان کا بے بس لہو ، نہتا حلیہ پکار پکار کر فریاد کر رہا ہے ویسے ہی جیسے کشمیری مسلمان ہندوئوں کے ہاتھوں تباہ ہورہے ہیں اور ان کے اپنے ماحول کے مسلمان کچھ نہیں کر رہے اس طرح اب تک صرف چند احتجاجی مظاہرے اور زبانی کلامی باتوں سے آگے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

ایسے میں ہمارے دل بھی رو رہے ہیں اور انہیں دل سے بُرا سمجھتے ہوئے ہم اپنے رب سے مدد طلب کررہے ہیں کہ اے عظیم خالقِ برحق اپنا رحم فرما ، مسلمانوں کو متحد ہو کر ایسا عمل پیش کرنے کی توفیق دے جو دشمنوں کی چالوں کو ان پر ہی پلٹ دے اور ہمیں ظالموں کی صف میں نہ رکھ بلکہ ہم سے مجاہد انہ کام لے لے اور ہمیں ظالموں پر فتح نصیب فر ما (آمین) بے شک ہم رب کی ذات سے مایوس نہیں مگر اپنے اعمال سے شرمندہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے رستے ہمیں سجھادے جو فلسطینی مسلمانوں (یعنی ہم سب مسلمانوں ) کو کامیاب کردے اور ہم سب مسجد اقصیٰ اور فلسطین جیسی مقدس سر زمین کی حفاظت کا حق ادا کرسکیں (آمین)۔

یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے

جب ہماری روح جاگے گی تو ہی ہم جاگیں گے اور ہمارے عمل چاہے صرف پاکستان اکیلا ہی حریف کیوں نہ ہو بولیں گے تب ہی ہم مظلوموں کا ساتھ دے کر ظالموں پر حاوی ہونگے ۔ اعلان جنگ کریں گے اور شہادت سے نہ گھبرائیں گے ۔ کتنے ڈرپوک اور بزدل اسرائیلی کہ نہتے عبادت میں مصروف مسلمانوں پر گولیاں چلا کر اپنی فتح کا جشن میزائیلوں سے آگیں لگا کر منا رہے ہیں ۔ کتنے بزدل ہیں بے بس ہیں ۔ دل ایمان سے خالی کھوکھلے ڈرپوک لوگ ہی ایسا کرسکتے ہیں ! شکر الحمد للہ ہم ایسے نہیں ، ظالم بادشاہ کے آگے کلمہ حق بولنا اور حق کی خاطر مرنا جینا ہی ہمارا طرئہ امتیاز ہے یہی ہماری فتح ہے اور یہی ہماری جیت ۔ چاہے مٹھی بھر ہو ں پہلا قدم تو بڑھائیں !! اللہ ہماری اور ہمارے ان مظلوم کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کی مدد فرمائے اور ہمیں انکے لئے وقف ہونے کا موقع عطا فرمائے ۔ آمین ۔ حکمران کہتے ہیں ہم اکیلے کچھ نہیں کرسکتے کیوں نہیں کر سکتے ؟ روشنی کیلئے ایک دیا ہی کافی ہے ۔ ایک فرد بھی تبدیلی لا سکتا ہے ۔ پہلا قدم ہی میلوں کا سفر شروع کرتا ہے ۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل

لوگ ملتے رہے کارواں بنتا رہا