ڈوبتی کشتی کا ملاح

ملاح کے چار بیٹے تھے اور چاروں کشتی چلانے کے خواہشمند تھے۔ ملاح کے پاس ایک کشتی تھی مگر کوئی بیٹا کشتی چلانے کے طریقے اور چپو کو سنبھالنے کا فن جاننے کو تیار نہیں تھا۔ ان چاروں کا ماننا تھا کہ وہ ملاح کے بچے ہیں اور ان کو کشتی چلانے کے طریقے سیکھنے کی بجائے ان کے ہاتھ میں چپو پکڑا دیا جائے۔

 روز چاروں میں لڑائی رہتی کہ آج وہ ابو کے ساتھ جائے گا اور کشتی چلائے گا اور ملاح سب کو ڈانٹ کر ان کو واپس بھیج دیتا۔ ایک دو دفعہ بچوں کو اکھٹا کر کے اس نے کشتی چلانے کے لیے باری باری بھی بلایا مگر کوئی صحیح طریقے سے کشتی کو سنبھال نہیں پایا۔ جس کی وجہ سے ایک دو دفعہ کشتی الٹتے بچ گئی۔ غلطی پر جب وہ اپنے بیٹوں کو کوئی بات کرتا تو آگے سے وہ سمجھنے کی بجائے باپ کو سمجھانا شروع کر دیتے۔

چاروں اپنے آپ کو ایک دوسرے سے عقلمند سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو کشتی کا جانشین مانتے تھے۔ اگر کوئی بھائی کشتی کو چلانے کی خواہش کرتا تو دوسرے اس کی مخالفت پر اتر آتے اور گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہو جاتا۔ ملاح جس بچے کو کہتا ”آؤ بیٹا! تمہیں میں لہروں سے بچنے، چپو گھمانے اور کشتی چلانے کا فن سیکھاتا ہوں“ تو بچے یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ ”کشتی ہمارے حوالے کی جائے۔ ہم آپ کے بچے ہیں۔ ہمیں سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بس چلانے کے لیے ایک  کشتی درکار ہے۔“ معاملہ وقت کے ساتھ بگڑ رہا تھا۔ بچے جوان ہو رہے تھے اور ان کی لڑائیاں کشتی کو حاصل کرنے کے لیے بڑھ رہی تھی۔ ہر کوئی اس کو حاصل کر کے دریا میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا اور تاریخ میں ایک بہترین ملاح ثابت ہونا چاہتا تھا۔

جب ملاح کی پریشانی بڑھ گئی تو اس نے ایک سکیم بنائی اور بچوں کو اکھٹا کیا اور کشتی پر سب کو بٹھایا اور دریا کے سفر پر لے گیا۔ جب وہ دریا کے بالکل درمیان میں پہنچا تو اس نے بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا ”اے میرے خاندان کے مستقبل! تم چاروں میری اولاد ہو اور تم چاروں اس ایک کشتی کو حاصل کرنا چاہتے ہو۔ آج یہ کشتی میں تمہارے حوالے کرتا ہوں جو اس چپو کو سنبھال کر اس کشتی کو خیر خیریت سے کنارے لے جائے۔ وہ اس کشتی کا مالک کہلائے گا۔“ ملاح یہ کہ کر خاموش ہو گیا اور اپنے بیٹوں کی طرف دیکھنے لگا، جو خاموش نگاہوں سے اپنے باپ کو دیکھ رہے تھے۔ جن کو امید بھی نہیں تھی کہ ایک دن ان کا باپ ان کو ایسے امتحان میں ڈال دے گا۔

ایک بیٹا اُٹھ کر چپو کی طرف بڑھنے لگا مگر کشتی کا توازن خراب ہونے لگا اور سب بھائیوں نے چیخ کر اس کو بیٹھا دیا۔ کسی نے ایک چپو کو اپنی گرفت میں لے لیا اور دوسرے نے دوسرے چپو کو مگر دونوں کا چپو گھمانے کا طریقہ آپس میں نہیں مل رہا تھا۔ جس سے کشتی ایک سمت پر چلنے کو تیار نہ تھی۔ ایک بیٹے  نے طریقے سیکھانے کے لیے زبان کھولی مگر سب بھائیوں کا کہنا تھا۔ تجھے سمجھ نہیں ہے، اس لیے تمہاری خاموشی بہتر ہے۔کافی دیر سب کشتی کا توازن قائم کرنے اور اس کو چلانے کی کوشش کرتے رہے۔ سب ایک دوسرے کے کانوں کو مشوروں سے بھرتے رہے۔ کبھی کسی کی غلطی سے کشتی کو نقصان پہنچنے لگتا تو سب بھائیوں کی چیخیں نکل آتی، مگر ملاح اپنے لب سی کر اپنے بچوں کو دیکھتا رہا۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سب بھائی شرمندگی سے اپنے باپ کو دیکھتے رہے، جو خاموش بت بنا ان کو دیکھ رہا تھا۔

بچوں نے کہا ”ابو ہمیں معاف کرنا۔ اگر آپ خاموش رہے تو ہم شرمندگی میں ڈوب جائیں گے یا یہ کشتی دریا میں ڈوب جائے گی۔“ ملاح نے جب اپنے بچوں کے چہرے کو دیکھا تو اس کا دل پگھل گیا اور کہنے لگا ”میرے بیٹو! یہ کشتی میری ملکیت ہے اور تم سب میری اولاد ہو۔ اس کشتی پر جتنا میری ایک اولاد کا حق ہے اتنا ہی باقی تینوں کا، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ تم چاروں کشتی حاصل کرنا چاہتے ہو۔ کشتی چلانے کا فن نہیں۔ تم بچپن سے اس کشتی کو دیکھتے آئے ہو۔ یہ ہمارے گھر کا خرچہ چلاتی ہے۔ تم سب کو پالنے کے لیے رزق کا ذریعہ ہے مگر آج تم اس کشتی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ اگر آج بھی تم اپنی ضد سے باز نہ آئے تو یہ کشتی ضرور ڈوبے گی اور ہم سب بھی۔“

بچے اپنے باپ کی بات کو بڑے غور سے سن رہے تھے جو کہ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ملاح نے اپنی بات جاری رکھی ”یاد رکھو! جو سیکھتا نہیں، وہ کبھی اہل نہیں ہوتا اور جس ملاح کا کوئی استاد نہیں ہوتا، اس ملاح کی کشتی کا نصیب ڈوبنا ہوتا ہے۔ جس کشتی کے لیے تم چاروں لڑ رہے ہو، وہ کشتی صرف ایک سوراخ سے تم چاروں کو اس دریا میں غوطے لگوا دے گی۔ چاہے وہ تم میں سے کوئی بھی کرے مگر سب ڈوبیں گے۔ اگر تم  چاروں اپنے باپ جیسا ملاح بننا چاہتے ہو تو تمہیں اس کشتی کو اپنی درسگاہ اور مجھے اپنا استاد سمجھنا ہو گا۔  تمہیں کشتی کا مالک بننے سے پہلے چپو گھمانے کا فن، کشتی کا توازن کیسے قائم رکھا جائے، ہواؤں کی سمت کا اندازہ، تیز لہروں سے کیسے نکلا جائے اور بہت کچھ جو تم وقت کے ساتھ سیکھو گے، تو تب جا کر تم اس کشتی کو چلانے اور ملاح کہلانے کا حق رکھو گے، ورنہ نا اہل ملاح کو یہ کشتی برداشت کرے گی اور نہ دریا، جس ملاح کی ناؤ کنارے نہ لگے، اس کی ناؤ اس کے نصیب کی طرح الٹی واپس آتی ہے اور اس کی ناؤ دوسروں کے لیے لکڑیوں کا ڈھیر ہوتا ہے۔ میرے بیٹو! میری باتوں کو یاد رکھنا اور اپنی اس درسگاہ کو بھی اور ایک بات کو پلے باندھ لینا کبھی کشتی میں سوراخ نہ کرنا، کیونکہ ڈوبتی کشتی کو کوئی دوسری کشتی نہیں بچا سکتی۔“ ملاح نے اپنی بات ختم کی اور اپنے بچوں کو چپو چلانے کا طریقہ سمجھانا شروع ہو گیا۔