جدوجہدآزادی فلسطین نئے مراحل میں داخل

اسرائیل اورغزہ کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی جدوجہد آزادی فلسطین ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، ۹مئی کواسرائیلی فوج مسجداقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے اندرداخل ہوئی اورآنسوگیس اور ربڑ کے گولیا ں برساکرنماز ادا کرتے ہوئے مرد وخواتین اور بچوں کو ایک مرتبہ پھر جارحیت کا نشانہ بنایا۔

اسی دوران یروشلم کے مشرقی حصے شیخ جراح ،جہاں فلسطینیوں کی قدیم آبادیاں ہیں۔ یہودیوں نے پولیس کی مدد سے ہنگامہ آرائی شروع کردی اورانہیں مکانات خالی کروانے کے لئے زبردستی فلسطینیوں کے گھروں میں داخل ہوکر دست درازی کرتے ہوئے ایک بڑا فساد کھڑا کردیا۔بیت المقدس کمپاﺅنڈ اورفلسطین کاسارا علاقہ مسلمانوں کے لئے انتہائی بابرکت مقام ہے۔ نبی کریم ۶۱ ماہ تک قبلہ اول کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔بیت المقدس کا۵۳ ایکڑکا کمپاﺅنڈ عالمی اثارقدیمہ کی جانب سے تحفظ فراہم کردہ علاقہ ہے۔

 یروشلم کی ۴۱سوسالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں ۲۳۰۱ سال تک فلسطینیوں اورمسلمانان عالم میں اسرائیل کے اس اہانت آمیز ظلم و بربریت پرشدید غم و غصہ کی لہر دوڑگئی۔ حماس نے شیخ جراح کے مظلوم شہریوں پراسرائیلی افواج کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا اور القاسم برگیڈ اوردیگر اسلامی جہادی گروپوں نے اسرائیل پرغزہ سے راکٹ داغنے شروع کردیئے۔انہیں پتا تھا کہ اس مزاحمت کا بہت بڑا خمیازہ غزہ کے شہریوں کو بھگتنا پڑے گا اور بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔۰۶۹۱ سے ۲۷ سالوں کے درمیان غزہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں باربار سینکڑوں مرتبہ ملبہ میں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔فلسطینیوں کا بچہ بچہ جان ومال کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیاررہتا ہے۔ بیت المقدس اورمظلوم فلسطینیوں کی تائید میں حماس نے اسرائیلیوں کو ایک اور سبق سکھانے کے لئے راکٹوں کی بارش شروع کردی۔ ۱۱ دن میں ۰۰۶۳ راکٹ داغے گئے۔ شہادت کے جذبے سے سرشار فلسطینی مجاہدین کو یہ پتا تھا کہ اسرائیلی عسکری ٹیکنالوجی سے تیارکردہ دنیا کا راڈار آئرن ڈوم راکٹوں کو فضا میں مکمل ضائع کردے گا۔ القاسم برگیڈ نے اس سے ایڈوانس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بے خوف وخطر اسرائیل کے اہم اورحساس مقامات کونشانہ بنا کر تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے،جس سے اسرائیل میں خوف و دہشت کاماحول پیدا ہوگیا۔

دنیا کی چوتھی بڑی طاقت سے اسلحہ کے بغیرجذبے سے سرشار غزہ کے فلسطینیوں نے ٹکر لینے کی جو ہمت اورحکمت عملی اختیارکی وہ بڑی حد تک کامیاب رہی۔اسرائیل نے ظلم وجارحیت میں کوئی کسرباقی نہیں رکھی۔

کرہ ارض پرفلسطینی واحد قوم ہے جو ۰۱۱ سال سے دنیا کی ظالم ترین طاقتوں کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد میں اپنی جان ومال قربان کررہی ہے۔بڑی طاقتوں کے گٹھ جوڑ سے جب سرزمین فلسطین پر اسرائیل کی نام نہاد حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا اس دن سے ہی فلسطینیوں کے گھروں ، بستیوں ،کھیتوں اورکارخانوں سے بے دخلی باربار گرفتاریاں جیل میں تشدد، مصائب اورموت وحیات کی لڑائی لڑتی آئی ہے۔

جس نے بھی اسرائیل کے ظلم و بربریت کے خلاف پتھراٹھایا وہ گولی سے ہلاک کردیا گیا۔ جب ۹مئی اسرائیلی قابض فوج نہتے فلسطینیوں پرمسلسل بمباری کررہا تھا تو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی چارمرتبہ منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف امریکا نے ویٹو کیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ہم اسرائیل کے تحفظ کے پابند ہیں ۔

 آج تک جتنے بھی امریکی صدور برسراقتدار آئے بشمول موجودہ صدر بائیڈن کے فلسطینیوں، عربوں اوردیگرمسلم ممالک سے ان کی نفرت، عداوت اور بغض کھل کر پھرایک مرتبہ دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔

اسرائیلی اخبارات ”یروشلم پوسٹ“ اور” ہرٹز“ نے اسرائیل اورغزہ کے نقصانات کا موازنہ کرتے ہوئے اپنے تجزیے میں یہ برملالکھا کہ اس جنگ میں حماس کا پلڑا بھاری رہا۔حماس اور جہادی گروپس اسرائیلی عوام میں حملوں کا نفسیاتی خوف اوردہشت بٹھانے میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ یہودیوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

بعض امریکی اوریورپی مبصرین نے تویہاں تک لکھ دیا کہ مستقبل میں دنیا کے عسکری کالجز میں حماس کی جنگی حکمت عملی کو بطور مضمون پڑھایاجائے گا۔ گذشتہ چند سالوںمیں ٹرمپ نے ڈیل آف دی سینجری کے نام پرمشرقی وسطیٰ کے تمام عرب حکمرانوں کواسرائیل کے قریب کیااوریروشلم جیسے مقدس شہرمیں امریکی سفارتخانہ کو منتقل کرکے اسے بہت بڑاکارنامہ قراردیا جارہا تھااورٹرمپ نے فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیادپردی جانے والی امدادکو روک دیا تھا۔ دوسرے جانب ہمیشہ کی طرح عرب خاندانی شخصی حکومتوں نے ایک کے بعد ایک اسرائیل سے سفارتی ،سیاسی اورتجارتی معاہدے کرکے نہتے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کے کی پشت پرخنجر گھونپتے رہے۔ عربوں کی بے شرمی کی حدتو یہ ہے کہ امارات کے وزیر نے کہا کہ اگرحماس راکٹ حملے بند نہیں کرے گا توہم غزہ میں سرمایہ کاری بند کردیں گے۔ اسرائیل کی اخلاقی فوجی شکست دیکھتے ہوئے کی عرب سیاسی قائدین کے ہوش اُڑگئے۔

حالیہ جنگ میں حماس نے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک بلین سے زیادہ کا نقصان پہنچایا، اس کی برقی اورتیل کی تنصیبات کوکامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے بھاری نقصان پہنچایا،یہودی گھروں اوردفاتر سے جان بچانے کے لئے بھاگنے پرمجبورہوئے۔ حماس کی جراتمندانہ مخلص قیادت نے ثابت کردکھایا کہ وہ بغیر کسی پڑوسی عرب ممالک کی مدد یا ان کی زبانی جمع خرچ ومسلسل دھوکے بازی سے اپنی جدوجہدآزادی سے ہرگزپیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں اورا نہوں نے بغیر ذرائع ووسائل کے تنہا اسرائیل جیسی جابرحکومت کو وہ سبق سکھایا جو دنیا کی تاریخ میں لکھا جائے گا۔

بارہ دن کی اس مزاحمتی جنگ میں جان ومال کی قربانیوں کے ذریعے اسرائیل کو پھر ایک مرتبہ یہ یادھانی کروا دی گئی فلسطین سرزمین ہماری ہے اورہماری ہی رہے گی۔ اس کی آزادی کے لئے کیوں نہ ہماری کشتیوں کے پشتے لگ جائیں اورتباہ کن نیو کلئیربموں کی ہمارے سروں پرچوبیس گھنٹے بارش کیوں نہ کی جاتی رہے ہم اپنی تحریک مزاحمت اسلامی الحرالمقادم اسلامیہ کوہرگز پست اورکمزورنہ ہونے دیں گے۔

آل سعود میں ملک فیصل بن عبدالعزیز عالم اسلام کے ایک عظیم متفقہ قائد کی حیثیت سے ابھرے تھے۔ ا انہوں نے اس و قت برملا کہاتھا کہ ”کونسا اسرائیل ہم ایسے کسی غیرقانونی ملک کو نہیں جانتے اورنہ قبول کرتے ہیں۔اسے ہماری سرزمین ہم کوواپس کرنی پڑے گی۔ہم قبلہ اول بیت المقدس اورارض فلسطین کی بازیابی کے لئے جنگ وجہادکے ذریعے سب کچھ قربان کرتے ہوئے دوبارہ حاصل کرکے رہیں گےااوراس للکار کا خمیازہ انہیں بھگتناپڑے گا۔“ اس ہمت و جرات کی پاداش میں ۵۲مارچ۵۷۹۱کوان کے محل میں انہیں شہیدکردیا گیا۔وہ آل سعود کے پہلے شہید بادشاہ تھے جنہوں نے فلسطین کازکے لئے اپنی جان قربان کردی۔عربوںکی دوہری چالوں اور دوررخی پالیسیوں نے بیت المقدس کی بازیابی کو پچیدہ اورمزید دقت ترین مسئلہ بنادیا ہے۔