حیا سراپا خیر ہی خیر

شرم وحیا انسانی نفس کا انتہائی اہم فطری اور بنیادی وصف ہے جو اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو فوری ودیعت کیا ہے۔ ہر برے کام کو کرنے سے طبیعت میں جو انقباض(یعنی دل کا تنگ اور بوجھل ہو جانا) پیدا ہو،حیا کہلاتا ہے۔حیا ایک ایسی عادت ہے جو حقدار کے حق میں کمی کرنے سے منع کرتی ہے اور انسان کو برے کاموں سے باز رکھتی ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے دیکھیں تو حیا فطرت انسانی کی وہ صفت ہے جسکی بدولت بندہ برے اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتا ہے۔

اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ بے شک ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے او اسلام کی خصلت حیا ہے۔حیا ہی وہ خوبی ہے جو اچھے اخلاق کی تکمیل اور ایمان کی مضبوطی کا باعث بنتی ہے۔ حیا اور ایمان کا خاص تعلق اور رشتہ ہے۔ اسی لیے حدیث پاک میں حیا کو ایمان کی ایک شاخ کہا گیا ہے جس کا پھل جنت ہے۔

اس کے برخلاف بے شرمی اور بے حیائی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔چار باتیں سنن المرسلین میں سے ہیں جن میں سے ایک حیا ہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ حیا سراسر خیر ہے گویا کہ انسان میں جوں جوں حیا بڑھتی جائے گی خیر کے دروازے اس کے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔ ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایاکہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔گویاحیا وہ چیز ہے جو انسان کو گناہوں سے روکتی ہے۔

مفہوم حدیث ہے کہ ایمان خالی ہے۔تقویٰ اس کا لباس ہے۔حیا اس کو زینت بخشتی ہے اور پاکدامنی اس کا اساس (مال) ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی کم بولنے والے،حیا والے اور پاکدامن انسان سے محبت فرماتے ہیں۔

اللہ تعالی کی طرف سے کسی بھی دل کو سب سے سنگین سزا یہ ہے کہ اس میں سے حیا چھین لے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حیا اور ایمان دونوں کا آپس میں مضبوط رشتہ ہے لہذا اگر ان میں سے ایک چیز بھی اٹھ گئی تو دوسری بھی اٹھ جائے گی۔آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ فحش گوئی جس چیز میں ہو، وہ اسے معیوب بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو وہ اسے مزین کر دیتی ہے۔عملی اعتبار سے حیا کے تین پہلو ہیں۔1۔اللہ سبحانہ تعالیٰ سے حیا۔2 ۔لوگوں سے حیا۔3 ۔اپنے نفس سے حیا۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ سے حیا کا مطلب یہ ہے کہ احکام الہیٰ کا پابند رہے اوریہ احساس رہے کہ ہمیں ہر ہر لمحہ ہمارا پرودگار دیکھتا ہے۔لوگوں سے حیا یہ ہے کہ حقوق العباد پورے کرے لوگوں کے سامنے جن باتوں کے اظہار کو برا سمجھا جاتا ہے ان سے بچے۔لوگوں سے حیا اللہ تعالی سے حیا کا ذریعہ ہے چنانچہ اگر کوئی شخص لوگوں سے حیا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالی سے بھی حیا نہیں کرتا۔حیا نہ رہے تو پھر بیوی،بیٹی اور بہن میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اپنے نفس سے حیا یہ ہے کہ نفس کو ہر قابل مذمت اور برے کام سے بچایا جائے۔انسان اپنی خلوت کو پاکیزہ رکھے۔اگر کوئی شخص تنہائی میں ایسا کام کرتا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کرتا تو در حقیقت وہ شخص خود اپنا احترام نہیں کر رہا۔

یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے تو شرماتا ہے لیکن خود اپنے آپ سے نہیں شرماتا تو اس نے اپنے آپ کو لوگوں سے بھی حقیر اور ذلیل بنایا ہوا ہے لیکن اگر اپنے آپ اور لوگوں سے شرماتا ہے لیکن اللہ تعالی سے حیا نہیں کرتا تو وہ معرفت الہی سے نابلد ہے۔

 قرآن پاک میں اللہ نے بنت شعیب علیہ السلام کی حیا کا تذکرہ کرکے پوری امت کی عورتوں کو یہ تعلیم دے دی کہ جب وہ بحالت مجبوری گھروں سے نکلیں اور نامحرموں سے بات کرنی پڑ جائے تو شرم وحیا کا پیکر نظر آئیں جیسے کہ شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم و حیا سے چلتی ہوئی آ ئی تھی۔مدین میں موسیٰ علیہ السلام نے شعیب علیہ السلام کی جن دو لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا تھا ۔ان میں سے ایک جب اپنے باپ کے پاس بلانے آئی تو اس وقت ان کے آنے میں حیا کی جو کیفیت تھی اس کا ذکر قرآن نے بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے:”پھر آئی ان دونوں میں سے ایک، شرم و حیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جوآپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔“(القصص ۲۵)

خاتون جنت سیدہ فاطمة الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو کہ شرم و حیا کا پیکر تھیں۔ ان کی مثالی حیا کا ایک واقعہ ہے۔ رسول پاکﷺ ایک بار اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ آپﷺ نے سوال پوچھا کہ عورت کے اندر بہترین صفت کونسی ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خاموش ہو گئے۔اچانک کسی کام سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گھر جانا پڑگیا تو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھ لیا کہ دربارِ نبوت میں یہ بات پوچھی جارہی ہے کہ عورت کی بہترین صفت کیا ہے۔ اگر آپ کچھ بتاسکتی ہیں تو بتائیں۔ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایاکہ عورتوں کیلئے بہتر یہ ہے کہ نہ تو وہ کسی نامحرم کو دیکھیں اور نہ ان کو کوئی نامحرم دیکھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ بات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دربار میں آکر عرض کی،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بات سنی تو فرمایاکہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تو میرے دل کا ٹکڑا ہیں۔

سیدہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حجرہ مبارک میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک بننے کے بعد پردے سے جایا کرتی تھیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تو قبر والوں سے بھی پردہ کریں اور ہم ان نوجوانوں سے بھی پردہ نہ کریں جو دل میں برے خیالات رکھنے والے ہوں۔ایک صحابیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جن کا نام ام خلاد رضی اللہ تعالٰی عنہا تھا۔ ان کے بیٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کسی جگہ گئے اور شہید ہوگئے۔اللہ رب العزت کی شان کہ یہ اپنے بیٹے کی معلومات کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائیں۔جس وقت یہ آئیں تو مکمل طور پر پردے کی حالت میں تھیں۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمھارا جوان بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ ایک صحابی رسول اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو فرمایا کہ دیکھو اتنی بڑی خبر کہ جوان بیٹا شہید ہوگیا ہے یہ خبر سن کر بھی یہ عورت اتنا کامل پردے کی حالت میں نکلی۔ تو ام خلاد رضی اللہ تعالٰی عنھا فرمانے لگیں کہ میرا بیٹا فوت ہوا ہے حیا فوت نہیں ہوئی۔

کاش امت کی ماﺅں،بہنوں اوربیٹیوں میں بھی ایسی حیا پیدا ہو جائے۔ شرم وحیا ایمانی زیور ہے۔کہیں ایمان کے لٹیرے،چور ڈاکو آپ سے یہ زیور چھین نہ لیں۔آج مغربی تہذیب نے حیا کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ اپنی اولادوں کو سورہ نور کی تعلیم دیجیے۔ اپنی بیٹیوں کو بتائیے کہ تم بنات نبی ﷺ ہو۔تم صحابیات رضی اللہ عنھن کی بیٹیاں ہو۔ان کی زندگیاں تمھارے لیے عملی نمونہ ہیں۔خدا کی قسم! عزت اوروقار کا جو تاج اسلام نے عورت کے سر پر رکھا ہے وہ کسی اور مذہب میں عورت کو میسر نہیں۔ خدارااپنی قدر پہچانیے۔دجالی فتنے میں مبتلا ہو کر اپنی نسوانیت کا عالی وقار نہ روند نہ ڈالیے۔ اپنی زندگی میں ہر ہر قدم ایسے پھونک پھونک کر رکھیں کہ ایمان کے لٹیرے اور عزتوں کے لٹیرے کہیں شرم وحیا کی یہ قیمتی دولت ہم سے چھین نہ لیں۔