ایک ماں پوری امت کی بنیاد

حکمت اور دانائی کی بات مومن کا کھویا ہوا مال ہے، جہاں سے مل جائے حاصل کر لیا جائے ۔ نیت اچھی ہو تو راستے خود آسان ہوجاتے ہیں ۔ ایک چلتا پیغام میری حوصلہ افزائی کر گیا جس کا عنوان تھا “ماں کی تا ثیر” عربی مقولہ ہے ـ” الام تصنع الامۃ ” یعنی ایک ماں پوری امت کی بنیاد رکھتی ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ جب سے ماں کے پیٹ میں بچہ حرکت کرنے لگتا ہے وہ ماں کی تاثیر لیتا رہتا ہے اور ہر اچھی بری بات کا اثر قبول کرنے لگتا ہے ۔ جب تک وہ خود سمجھدار نہ ہوجائے ماںکا زیادہ اثر قبول کرتا ہے بلکہ عورت کی پاکیزگی کا اثر اس کے شوہر کی زندگی پر ، اس کی عمارت پر ، اس کے دین پر بھی پڑتا ہے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ عورت مرد کے نصف دین کی محافظ ہے ۔

ایک بزرگ اپنی بیوی سے کہنے لگے “میں تہجد پڑھتا ہوں جبکہ تم صرف فجر کی نماز پڑھتی ہو ” دوسرے دن باباجی کی آنکھ فجر میں جا کھلی ، بیوی کو کہنے لگے معلوم نہیں کیا ہوا؟ پہلے تو آسانی سے تہجد میں بیدار ہوجاتا تھا ۔ آج فجر مشکل سے پڑھ پایا ۔ بیوی صاحبہ کہنے لگیں کہ پہلے میں روزانہ آٹا گوندھنا اور کھانا بنا نا باوضو کیا کرتی تھی مگر کل جان بوجھ کر نہیں کیا بس اسی وجہ سے آپ کی آنکھ نہ کھلی کیونکہ آپ کے تہجد میں میرے باوضو کھانے بنانے کا عمل دخل زیادہ تھا ۔

عورت کی دینداری اور علمِ دین بچوںمیں خوب رنگ جماتا ہے ۔ ماں دیندار ہو تو بچہ باکمال بنتا ہے ۔ امام شافعی کی پرورش ماں نے کی ۔ امام احمد کی پرورش ماں نے کی ۔ جناب شیخ عبد القادر جیلانی کی پرورش ماں نے کی ، عفراء بنت عبید وہ خوش نصیب صحابیہ ہیں جن کے سات بیٹوں نے اسلام کی پہلی جنگ میں شرکت کی اسی پاک ماں کے وہ بہادر بیٹے معاذ اور معوذ تھے ،جنہوں نے ابو جہل کو قتل کیا تھا ۔

جب مائوں نے بچوں کو دین کی گھٹی پلائی تب بچے مجا ہدین پیدا ہوئے ، تب بچے علماء پیدا ہوئے ۔ اب مائوں نے دنیا پلادی تو اب بچے اداکار و فنکار و گلوگار پیدا ہو رہے ہیں ۔ آج کل مائوں کا کام اور ذمہ داری اور زیادہ ہے۔ ہزارہا چیلنجوں کا سامنا ہے ،دین کی کمی ہے ۔ ماحول اور میڈیا کا آسیب ہے ، بیروزگاری ہے ، بیماری ہے یوں سمجھیں لمحہ لمحہ خواری ہے، دنیاداری ہی دنیاداری ہے ، نہ احساسِ ذمہ داری ہے نہ آخرت ہی کی تیاری ہے ۔ اس لئے پریشانی ہی پریشانی ہے اس لئے بچوں کو دین پڑھانے سے اہم بچیوں کو دین پڑھانا ہے ۔ وہ قول ہے نا کہ “تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھا معاشرہ دونگا ۔ یہ تمام مرد حضرات ہمارے ہی تو بھائی بندے ہیں ۔ مائوں کی گودوں میں تربیت پانے والے بچے اور بچیاں ہی تو مستقبل کا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں ۔

ایک قوام مرد جب عورت کو عزت احترام دیتے ہوئے محافظ بن کر تمام ذمہ داری نبھاتا ہے تو ایک عورت اپنے اعلیٰ کردار سے محبت اور جفا کشی سے جب اپنی اولاد کو پالتی ہے تو ضرور وہ اولادیں رنگ لاتی ہیں ۔ اسی لئے تو ہر عمر کا بندہ اکثر اپنی ماں کو ہی ہر مشکل کا حل سمجھتا ہے اور اپنے غم شیئر کرتا ہے اور جن کی مائیں نہیں ہوتیں وہ ہر بات پر اپنی ماں کو یاد کرتے ہیں چاہے انہوں نے زندگی میں ان کے ساتھ کیسا ہی سلوک کیا ہو ؟ مگر موجودہ دور میں مائوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کا خود کا کردار کیا ہے کہاں کہاں ان کے کردار میں جھول ہے اور کہاں کہاں خامیاں کمزوریاں ہیں ؟ ایمان کا بیج کیسا ہے ؟ اس پر کتنے عمل پیرا ہیں اور اپنے بچوں کیلئے کیسی مثال ہیں ؟ دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ دین کے معاملے میں ان کا خود کا کردار مثال ہے یا مشکوک ؟ خود احتسابی ، ندامت ، اصلا حی اقدامات دعا اور مخلص سوچ ہی ہمیں وہ راہ دے سکتی ہے کہ ہم پہلے اپنے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ عملی اقدامات مستقل بنیادوں پر کریں اور اللہ کی فرمانبرداری اور شریعت کی عملی مثال بن کر اپنے بچوں کو ہر جگہ دین سے جوڑے رکھیں اور اللہ کی محبت اور اس کا خوف آہستہ آہستہ ایسے بچوں میں سرا ئیت کروائیں کہ وہ پہلے اپنے رب کے فرمانبردار اور مطیع ہوں تو والدین بھی فرمانبرداری کا پھل حاصل کر سکیں گے ۔ (انشاء اللہ) ۔ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو آمین۔

ہم جب چھوٹے تھے تو “ہر تان دیپک”دیکھا کرتے تھے اس میں ایک عورت گانا گاتی تھی جو بڑا اچھا لگتا تھا نہ جانے مجھے کیوں اچھا لگتا تھا نہ جانے کیسے سن سن کر مجھے اس کے کچھ بول یاد بھی ہوگئے تھے کیونکہ بڑے ہونے پر بھی اکثر”تکرار”کے طور پر دکھایا جاتا تھا پھر پھر ہم نے خود جان بوجھ کر اسے یوٹیوب پر دیکھا تھا کہ بول کچھ یوں تھے کہ تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا ، عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے

اولاد تمہاری دولت ہے ، تعلیم تمہارا گہنہ ہے

تم اپنی خوشی قربان کرو ، اِ ن کے سکھ کا سامان کرو

یہ گھر کے ستارے سکھی رہیں ، تم ماں ہو تمہیں دکھ سہنا ہے

تعلیم کی دولت دو ان کو ، ایمان کی عظمت دو ان کو

ان گھر چراغوں سے تم کو ، دنیا میں اجالا کر نا ہے

تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا ، عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے

یہ ساری باتیں کوئی نقل نہیں حکمت اور دانائی کی باتیں لگیں سمجھ آئیں تو میں نے آگے بڑھائیں تا کہ میری بہنیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا کر ایک ذمہ دار ماں کی طرح پوری امت کی بنیاد بنیں ۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین