اسرائیلی جارحیت اور مسلم امہ کی بے حسی

فلسطینیوں پر اسرائیلی جبر اور ظلم کی انتہا ہوچکی، اور اس وحشیانہ جارحیت پر بین الاقوامی برادری اور مسلم امہ کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ بلاشبہ جب تک دنیا کے مہذب معاشرے اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند نہیں کریں گے یہ ناجائز ریاست پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا باعث بنتی رہے گی۔

آج نہتے فلسطینی اپنا دفاع پتھروں سے کررہے ہیں جبکہ اسرائیلی گولہ بارود، ٹینک اور جنگی جہاز ان کے خلاف استعمال کررہے ہیں، یہ تمام مناظر پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ فلسطینی معصوم بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کا قتل عام اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اب اسرائیل کی ریاست پوری دنیا میں دہشت گرد ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جو امریکا اور برطانیہ کی کوششوں سے ناجائز طور پر وجود میں آئی تھی۔

اسرائیلی مبینہ مظالم کے باوجود عالم یہ ہے کہ عالمی طاقتیں مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی کرتی چلی آرہی ہیں اور عرب ممالک نے بھی امریکا کو اپنی سرزمین پر فوجی اڈے دے رکھے ہیں کیونکہ ان ممالک میں بادشاہت ہے اور حکمران امریکا کے زیر سایہ رہ کر اپنا اقتدار مضبوط بنائے رکھنا چاہتے ہیں ، اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی اپنی سرزمین پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر رسائی دیتے رہتے ہیں۔ جبکہ مسلم امہ کے اکثر شاہی خاندان اسرائیل کے ساتھ اپنے باقائدہ روابط بھی استوار کرچکے ہیں۔ حال ہی میں چند اسلامی ریاستوں اور عرب ممالک نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا اس پورے سفارتی عمل میں امریکی پالیسی کار فرما تھی۔

اب ہونا تو یہ چاہیے کہ غزہ میں اسرائیل آگ و خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے اس کے جواب میں فوری طور پر عرب اور مسلم ریاستیں جو اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی روابط استوار کرچکی ہیں، ان روابط کو ختم کرنے کا اعلان کردیتیں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ان ممالک کی جانب سے کوئی احتجاجی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا، جبکہ برطانیہ اور امریکا کے بڑے شہروں میں اسرائیلی مظالم کے خلاف عوام کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے ۔

آج مسلمان ممالک کے پاس تیل ہے انسانی قوت ہے افریقہ، ایشیا، یورپ کے براعظموں میں موجود بڑی تعداداور غیر مسلم ممالک میں ان کی افرادی قوت اور جائدادوں کی موجودگی اور بڑی بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات ہیں ، مگر یہ ان تمام نعمتوں کے باوجود انتہائی ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اس وقت کی مسلم لیڈرشپ نفرت زدہ اور خوفزدہ اور زیادہ تر عیاش ہاتھوں میں ہے سو کسی سے کوئی امید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما بھی عالمی برادری، اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی تنظیموں سے مداخلت کرنے کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔یہ اپیل مسلم دنیا کی بے بسی اور نا اہل مسلم قیادت کا ثبوت ہے ۔

فلسطین میں اسرائیل کی درندگی اس امر کا تقاضا کررہی ہے کہ اب ہر طرح سے فلسطینی عوام کی مدد کی جائے ۔ وقتی جنگ بندی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس سلسلے میں مستقل حل کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنا رویہ بدل کر آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کے سلسلے میں عملی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ 57 مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو بھی اس موقع پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں ترکی کے علاوہ جن ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ان میں سعودی عرب، پاکستان، ایران اور متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں۔ اسرائیل کی مسلم دشمنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب اسرائیل بھارت اور افغانستان تک اپنی رسائی یقینی بنا چکا ہے ۔ اسرائیلی جارحیت اگر اسی طرح جاری رہی تو یہ المیہ گمبھیر صورتحال اختیار کر جائے گا اور خدشہ اس بات کا ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک تیسری جنگ عظیم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔

چند ہی برس پرانی بات ہے آپریشن بلیک بیلٹ کے نام سے اسرائیل نے فلسطینیوں پر خوفناک جنگ مسلط کی تھی جس میں اسرائیلی فورسز نے غزہ میں قیامت برپا کی تھی اور حماس اور الجہاد نے جوابی راکٹوں سے فائر کرکے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ آج پھر اسرائیل گارڈین آف دی وال کے نام سے ایک قیامت برپا کئے ہوئے ہے ۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان طاقت کے عدم توازن اور تناسب کے فرق کی طرح نقصان میں بھی توازن نہیں بن پاتا۔ اسرائیل کا ایک فرد مرتا ہے تو جواب میں اس کی کوشش ہوتی ہے درجنوں افراد کو بلا تخصیص عمر وجنس قتل کرکے اس کا حساب چکائے ۔

اسرائیل کی اس جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین میں پائیدار امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے کہ جب تک اسرائیل اپنی ریاستی دہشت گردی کی پالیسی ترک نہیں کرتا۔ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کیلئے افسوس کا مقام ہے کہ گزشتہ ایک صدی سے فلسطین کا ایشو تاحال حل طلب ہے ، مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے ، فلسطینیوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں مشکل حالات سے دوچار ہے۔ عالمی برادری کی بے حسی نے فلسطینیوں کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ، بدقسمتی سے سرزمین فلسطین کو خون میں رنگے طویل عرصہ بیت جانے کے باوجود پڑوسی عرب ممالک کی جانب سے کوئی قابل عمل حکمت عملی کا تعین نہیں ہوسکا ۔ اس سنگین صورتحال پر اگر مسلم ممالک نے ہوش کے ناخن نہ لیے، اسرائیلی مظالم کیخلاف منظم و مربوط آواز بلند نہ کی تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔