کرائم منسٹر آف اسرائیل

 بینجمن نیتن یاہو کے نام سے کون واقف نہیں ہے یہ امریکہ برطانیہ اور یورپ کی پیدا کردہ ناجائز جمہوری دہشت گرد ریاست اسرائیل کا چار بار منتخب  وزیر اعظم ہے جس کو خود اسرائیل میں اس کی کریپشن اور رنگین طبیعت کے سبب ”کرائم منسٹر”اور ” دی مین لائک” بی بی “ بھی کہا جاتا ہے۔اس کے دور میں اسرائیل کی عسکری کمانڈ بہت مضبوط ہوئی اس کی چالاک، مکار  اور بلیک میلنگ پر مبنی  خارجہ پالیسوں کے سبب آج بہت سے عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں یا کرنے والے ہیں۔

بے قصور فلسطینوں پر  آئے دن جو مظالم اس مردود کے ادوار میں  کیےگئے ہیں اس کی مثال کرراہ ارض میں کہیں نہیں ملتی غزہ کو دنیا سے کاٹ کر سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ اگر فلسطین اور خاص کر غزہ کو اسرائیل کے اسلحہ کی تجربہ گاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ہر طرح کے اسلحہ سے لے کر فاسفورس بم جن پر پابندی ہے فلسطین پر برسائے گئے ہیں مگردنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔

ہر دفعہ اسرائیل ظلم وستم کا بازار گرم کر کے آخر میں سارہ ملبہ حماس اور فلسطینی عسکری تنظیموں پر ڈال کر دنیا کے آگے خود کو معصوم ثابت کرنے میں لگ جاتا اور اس کے ناجائز وارثین ہمیشہ اس کا ساتھ دیتے  ہیں۔

گزشتہ دنوں بھی کچھ ایسا ہی ہوا اچانک اسرائیلی فوج نے مسجد اقصی پر دھاواں بول دیا وہ بھی تب جب ماہ مقدس میں فلسطینی مسلمان مسجد کے اندر نماز تراویح ادا کررہے تھے۔ پوری دنیا نے یہ منظر دیکھا کے کیسے سفاک فوجیں مسجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے معصوم نمازیوں پر شیلنگ کرتی رہی جس میں کئی نمازی زخمی ہوئے دوسرے دن بھی یہ ظلم روا رکھا گیا۔ یہاں تک کے غزہ کی ایک عمارت کو میزائیل سے اڑایا گیا جس میں حماس کے ایک سینئر کمانڈر اور کئی بے گناہ شہری شہید ہوئے جس میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔

 اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدام کا ردعمل حماس کے میزائیل حملوں کی صورت میں آیا آج ساری دنیا گواہ ہےکے شرارت اسرائیل کی ہی ہے جو بڑھ چڑھ کے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں آج خاموش ہیں کہ کیا منہ دیکھائیں پوری دنیا کے کونے کونے میں عام عوام خوا مسلمان ہو یا نہ ہو سڑکوں پر فلسطین کی حمایت میں نظر آرہے ہیں۔

اسرائیل مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتا ہے اس لیے اکثر کوئی نہ کوئی چال چلتا رہتا ہے مگراس وفعہ ایک مسئلہ اور بھی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو درپیش تھا وہ تھا انکی سیاسی اور خاندانی ساکھ جو گزشتہ 3سالوں میں بےتحاشہ خراب ہوچکی ہے۔  ایک طرف ان کے عدالتی ٹرائل ہے تو دوسری طرف انکی بیوی پر قومی فنڈز کی خوردبرد کے ساتھ ملازمین پر ذہنی اور جسمانی تشدد کے چارجیز ہیں۔ نیتن یاہو پر الزام ہیں کہ وہ بڑے بڑے بزنس  مینز سے رشوت اور تحائف لے کر امریکہ اوریورپ میں ان کے مفادات کے مطابق ڈیل کرواتے ہیں۔اس کے علاوہ  اسرائیلی وزیر اعظم پر اپنے ملکی اخبارات پر دباؤ اور رشوت کے الزامات بھی ہیں۔ مہنگی  شیمپین اور سگار کے بدلے میڈیا ہاؤسیسز میں صحافیوں کی تعیناتی کی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ یہودی آبادکاری کے لیے آنے والے غیرملکی فنڈز میں سے بھی کافی مال اندر کیا جبکہ ان کی بیگم بھی ان سے کم نہیں وہ بھی قومی خزانے کو کئی دفعہ نقصان پہنچاچکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ملازمین کے حوالے سے کافی بدنام ہے انھیں ”کوئین آف انگر “ غصہ کی ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے ملازمین پر وحشیانہ تشدد پر جرمانے بھی بھگت چکی ہیں۔ ان کی طرح ان کا بڑا بیٹا ییان نیتن ہاہو بھی آئے روز کسی نہ کسی اسکینڈل کی زد میں رہتا ہے۔

 اس کا سب سے نمایاں کارنامہ ”پروسٹیٹیوٹ اسکینڈل“ تھا جوایک اوڈیو ریکاڈنگ تھی جس کو خود وہاں کے حکام تک جھٹلا نہ سکے اس میں نشے میں دھت ہوکر اپنے ابا حضور اور اپنے کالے کارنامے بڑے فخر سے بیان کررہے ہیں اور بتا رہا تھا کے کس طرح میرا باپ پیسے بنانے کے ساتھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتا ہے خود اسرائیل میں لوگ نیتن یاہو خاندان کی بادشاہت کے خلاف سڑکوں نکل چکے ہیں جبکہ اگلے دوسال میں چار بڑے الیکشن ہے اس لیے نام نہاد ”کرائم منسٹر “نیتن یاہو نے ہر مسئلے کا حل فلسطینیوں پر بمباری کی صورت میں نکالا اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور اسرائیلیوں کا بھروسا دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جلد بازی میں فلسطین  پر جنگ مسلط کردی مگر میرا سوال یہ ہے کے خون مسلمان اتنا سستا ہوچکا ہے کہ کبھی الیکشن جیتنے کے لیے مودی کشمیریوں کا خون بہاتا ہے تو کبھی اسرائیل فلسطینیوں کا وہ دشمن ہے ان سے شکوہ نہیں 52مسلم ممالک تو اپنے ہیں وہ کیو خاموش ہے ؟

امریکہ اور اقوام متحدہ کبھی ان مسائل کو حل نہیں کرپائیں گے یہ ذمہ داری ہماری ہے ایسا نہ ہو کسی کے انتظار میں ہم سب بارگاہ خداوندی میں قصوروار نامزد ہو کر عذاب الہی کے مستحق ٹھرے۔اب بھی وقت ہے امت کو ہوش میں آنا ہوگا ورنہ اس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔