القدس

آج سے کچھ دہائیاں قبل اسرائیل ایک بہت کمزور ریاست تھی۔ اس دوران اسرائیل کے شاطر دماغوں نے مستقبل کی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو بڑھایا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے علم میں اپنا لوہا منوایا۔ آج بھی یہودی شعبہ تعلیم کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں۔ دنیا کی اکانومی پر وہ چھائے ہوئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ انہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے وہ خطے میں اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط تر بنا سکتے تھے۔

اسی دوران شام ، فلسطین اور اردگرد کی مسلم ریاستیں خواب غفلت کے مزے لوٹ رہی تھیں۔ نہ انہوں نے اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھایا اور نہ اپنی جنگی قابلیت پر کام کیا۔ اس روئے زمین پر ایک قانون “Survival of the fittest” کے نام سے کار فرما ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان یا اس کی قوم کو ہر صورت میں اس قانون کی اتباع کرنی ہوتی ہے۔ کمزور پر بھاری ہمیشہ سبقت ہی لے جاتا ہے۔ یہ ایک الگ اخلاقی تقاضا ہے کہ مضبوط کمزور کا ناحق استحصال نہ کرے۔ جو کہ صرف اسلام کے دائرے کار میں رہتے ہوئے ہی انسان میں یہ اخلاقی حس بیدار رہ سکتی ہے۔ اب اسرائیلیوں اور اس کے حواریوں سے یہ امید لگانا کہ وہ نرمی برتیں، ایسا ممکن نہیں۔ آج جس ظلم و ستم کو سہنے پر مسلمان مجبور ہیں اس کی وجہ جرم ضعیفی ہے۔

 افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو

 دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

 تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

 ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!

لہذا ان تمام استحصالی قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو بحیثیت امت مضبوط کریں۔ امت مسلمہ کی مضبوطی اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے میں پوشیدہ ہے۔علم و تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منوانے، اپنی جنگی قابلیت کو بڑھانے، کاروباری دنیامیں اپنی حکمرانی کو قائم کرنے میں مضمر ہے۔غرض یہ کہ ہر وہ میدان کار جو مسلمان کو طاقت بخشے۔

 ہر وہ مسلمان جس کا دل دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر آبدیدہ ہے۔ اس کو چاہیے کہ دین الہٰی سے اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر بنائے، اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیر سیرت کے مواقع پیدا کرے اور ہر وہ میدان کار جہاں مسلمان کمزور ہیں، اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس میں اپنا حصّہ ڈالیں۔