لاک ڈاؤن اور عید

ارے یار کیا مسئلہ ہے! یہ لاک ڈاؤن نے تو ساری عید کا مزا برباد کر دیا، نہ کہیں گھومنے جاسکتے ہیں نہ فرینڈز کے ساتھ گیٹ ٹو گیدڑ کر سکتے ہیں لگتا ہے کسی جیل میں قید ہیں۔ ” میرا بڑا بیٹا ارسلان سخت بیزار تھا،  انتہائی بیزاری سے ادا ہوئے چند جملے میرے دل میں پیوست ہو گئے میری نگاہوں میں وہ کشمیری بچے گھوم گئے جو واقعی جیل میں قید ہیں زندگی کے سب دروازے جن پر بند ہیں جو ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں۔

 میں نے اپنے سب کام روک دیے اور فورا” اپنے بیٹے کے پاس جا کر بیٹھی کیونکہ مجھے لگا کہ اس وقت میری اولاد کو میری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ کیا ہوا میرا بیٹا کیوں ناراض ہے؟میں نے پیار سے پوچھا! اوہو مما یہ بھی کوئی عید ہے میں سخت بور ہو رہا ہوں نیٹ بھی صحیح کام نہیں کر رہا میں کیا کروں اس سے زیادہ فضول عید میں نے اپنی لائف میں نہیں دیکھی۔ ارے نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے  زندگی صرف کھیل تماشے اور انٹرٹینمنٹ کا نام نہیں ہے تم نے ابھی سختی دیکھی نہیں ہے اور اللہ نہ دکھائے لیکن ذرا اپنے اردگرد دیکھو۔ تم تو اس ہلکے سے لاک ڈاؤن سے گھبراگئے گئے اپنے ان کشمیری بہن بھائیوں کا سوچو جہاں  پچھلے اکیس ماہ سے ایک سخت ترین لاک ڈاؤن نے انسانی المیے کو جنم دیا ہے لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں تک گھروں میں دفنانے پر مجبور ہیں ۔ ان فلسطینی بچوں کا سوچو جن کی عید کو اسرائیل نے ماتم بنا دیا ہے نہ جانے کتنی مائیں اپنے بچوں سے محروم ہوئیں ہیں اور کتنے بچے اپنے والدین سے۔ آپ ہی کی عمر کا کشمیری اور فلسطینی بچہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور آپ محظ اس لیے پریشان ہیں کہ عید پر مزا نہیں آیا۔

لیکن ان پر تو جہاد مسلط ہو گیا ہے ناں، ہم بھی ان کی جگہ ہوتے تو یہی کرتے اب یہاں بیٹھ کر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ اب یہ سوال میرے چھوٹے بیٹے کی طرف سے آیا گویا ذہن کے دریچے کھلے تو ہیں لیکن سمت ابھی درست نہیں ہے۔  اب میں نے رخ اپنے چھوٹے کی طرف کیا۔ پہلی بات تو میرے ننھے بچے جہاد مسلط نہیں ہوتا مزین ہوتا ہے جہاد تو مومن کا زیور ہے اور ہر مومن پر فرض ہے ۔ جہاد کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے حالات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس سے فرار مومن کو زیبا نہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ اللہ کے بہت چہیتے ہیں کہ وہ بچے انتہائی مشکل وقت میں ہیں اور آپ یہاں اپنے پیاروں کے ساتھ مزے سے ٹھنڈے گھروں میں بیٹھے ہیں۔

 نہیں میری جان آپ پر بھی جہاد فرض ہے۔ اپنے نفس سے جہاد۔ یہ جو آپ ہر وقت موبائل میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے وقت کو ضائع کرتے ہیں اللہ پوچھے گا آپ سے اس وقت کے بارے میں۔ ” لیکن ہم تو نماز بھی پڑھتے ہیں  میں نے تو روزے بھی پورے رکھے ہیں تراویح بھی پڑھی اب تھوڑا سا موبائل لے لیا تو کیا بہت گناہ ہوگا  ؟  ایک اور سوال؟ لیکن اس سوال میں بیزاری نہیں تجسس تھا  ” شکر الحمدللہ آپ نماز پڑھتے ہیں لیکن آپ کی نماز آپ خود بھی جانتے ہیں کیسی ہوتی ہے جلدی جلدی بھاگم بھاگ۔ کیوں؟ آپ کے سر پر تو کوئی اسرائیلی گن لے کر نہیں کھڑا کہ آپ جلدی نماز پڑھیں آپ تو سکون سے پڑھ سکتے ہیں ناں، پھر آپ کو مسجدوں سے کوئی نہیں نکال رہا لیکن آپ تھوڑی سی گرمی میں مسجد جانے سے کتراتے ہیں ، موبائل چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں پھر واپس موبائل لے لیتے ہیں ، قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن بس رمضان میں اور وہ بھی ناظرہ۔ کبھی خود اپنی لگن سے جاننے کی کوشش کی کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے  ؟ اور میری جان یہی آپ کا جہاد ہے۔

 اللہ نے دوزخ کا راستہ نفس کو پسند آنے والی چیزوں سے بھر دیا ہے اور جنت کا راستہ نفس کو نہ پسند آنے والی چیزوں سے مزین ہے۔ آج کا سب سے بڑا جہاد دجالی نظام سے ہے ۔ دجالی نظام یہ کیا ہوتا ہے  ؟ میری بیٹی نے بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا۔  دجل کہتے ہیں دھوکے کو اور ہمارے اردگرد اتنا دھوکہ ہے کہ ہم سمجھ ہی نہیں پاتے کیا صحیح ہے کیا غلط؟ جیسے ہمارا تعلیمی نظام۔ ہم نے تعلیم کو شخصیت کو سنوارنے کے بجائے دنیا کمانے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ نمبرز کی ایک ایسی ریس ہے جس نے بچوں اور ان کی ماؤں کو اللہ اور دین تک بھلادیا ہے ہر کوئی اس ریس میں فرسٹ آنا چاہتا ہے لیکن میرے بچوں  یہ کامیابی یا اس کی دوڑ  ہمارے ایمان کی قیمت پر ہو ئے تو سمجھو گھاٹا ہی گھاٹا ہے ہم اس نظام کے سامنے اپنے ایمان کا سودا کر لیتے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ یا پھر دنیا کمانے کی ریس یہ بھی وہ سودا ہے جس میں صرف گھاٹا ہے۔

ہر وہ چیز جو آپ کو آپ کے رب اور اصل مقصد سے غافل کر دے وہ دجل ہے اور اس سے جہاد فرض ہے پھر وہ آپ کا موبائل ہو یا پھر کوئی اور چیز۔ اس سے خود کو بچا کر اللہ کے لیے خالص کرنا آپ کا جہاد ہے۔ پھر کون اس جہاد میں شریک ہے ؟ میں نے تینوں کو دیکھا  ۔ تینوں ہی میری طرف دیکھ  رہے تھے اور سب سے پہلے میری بیٹی نے لبیک کہا۔ “میں ہوں مما اور میں اپنی سب فرینڈز کو بھی بتاؤنگی۔ ” انشاءاللہ اللہ آپ سے راضی ہو ۔”لیکن مما موبائل چھوڑنا تو بڑا مشکل ہے اور پھر قرآن میں دل بھی تو نہیں لگتا ” میرے چھوٹے بیٹے نے سچائی کے سب ریکارڈ توڑ دیئے۔

بالکل میری جان میں سمجھتی ہوں لیکن جہاد آسان تو نہیں ہوتا ناں اور پھر آپ کے ساتھ آپ کی مما ہیں ناں اور سب سے بڑھ کر پیارے اللہ میاں ! اگر آپ ارادہ کر لیں گے تو وہ آپ کو تھام لیں گے اور آپ کے لیے سب آسان ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہی ہے تو میں اس جہاد میں شامل ہوں۔ چھوٹے سے پہلے بڑے نے لبیک کہا۔ ”   اور میں بھی ” اب چھوٹا بھی شامل ہوگیا تھا  ۔

 شکر میرے رب کہ آپ نے آزمائش سے پہلے رجوع کا موقع دیا اب اس پر جم جانے کی توفیق عطا فرمائیے گااور ہمیں اور ہماری نسلوں کو دجالی فتنے سے بچائیے گا۔ “

“آمین “