جموں کشمیرمیں اسپیشل ٹاسک فورس کا قیام

جموں وکشمیر میں پھیلی وبائی بیماری کرونا وائرس کے بیچ حکومت نے مبینہ طور پربھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کی تفتیش کےلئے 21 اپریل کواسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دیا ہے۔اس فورس کے قیام میں عمل میں لانے کے ایک ہفتے بعد ہی اس قانون کو  لاگو کرتے ہوئے سب سے پہلے کپواڑہ کے ایک استاد اس قانون کا نشانہ بنے اور نوکری سے برطرف کئے گئے ۔

محکمہ عمومی انتظامی کے کمشنر سیکریٹری کی جانب سے جاری ایک حکمنامے میں بتایا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنرنے اس کیس کے حقائق اور حالات پر غور کرنے اور دستیاب معلومات کی بنیاد پرگورنمنٹ مڈل اسکو ل کرالہ پورہ کپوارہ کے اُستادکی سرگرمیوں کے پیش نظرانہیں ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے۔

حکمنامے میں مزید در ج ہے کہ ’لیفٹیننٹ گورنر اس بات سے مطمئن ہیں کہ آئین ہند کے آرٹیکل کی ذیلی شق( 2) (C) کے تحت ریاست کی سلامتی کے مفاد میں تحقیقات کرنا مناسب نہیں ہے جبکہ اسکے دو روز بعد ہی اسی قانون کے تحت ایل جی انتظامیہ نے مزید دو سرکاری ملازمین جن میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر عبدالبای نائک اور پلوامہ سے نائب تحصیلدار نذیر احمدوانی کو’ریاست کی سلامتی کے مفاد میں‘ نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

کلگام سے تعلق رکھنے والے ادھمپورہ کالج میں تعینات اسسٹنٹ پروفیسر عبدالبای نائک کو 7مارچ کوغیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ کے تحت 2018ءکے کسی کیس میں گرفتار کر لیا تھا۔آئین کی دفعہ311 کے مطابق کسی بھی فرد کو برخاست یا درجہ میں کم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔تاہم انکوائری کے بعد جس میں ملازم پرلگائے گئے الزامات کے بارے میں اسکو آگاہ کیا گیا ہو اور الزامات کے سلسلے میں سنوائی کا مناسب موقع فراہم کیا جائے۔

اگر انکوائری میں انہیں قصور وار ثابت کیا جاتا ہے تو انہیں برخاست کردیا جائے گا ۔ تاہم اس دفعہ کی ذیلی شق کے مطابق اس شق کا اطلاق نہیں ہو گا جہاں صدر یا گورنرمطمئن ہیں کہ ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لئے ایسی تفتیش کا انعقادمناسب نہیں ہے ۔جس کے تحت حکومت کو اتنے اختیارات حاصل ہوئے ہیں کہ وہ کسی بھی ملازم کو بغیر کسی تفتیش یا انکوائری کے نوکری سے برخاست کر سکتی ہے ۔ اور اسی شق کا استعمال کرتے ہوئے ایل جی منوج سنہا نے تینوں ملازمین کو نوکری سے برطرف کر دیا ہے ۔

ادھر سیاسی لیڈران کی جانب سے ملازمین کی برطرفی پر کافی تنقید کی جا رہی ہے ۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی صدر محبوبہ مفتی نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا وبائی بیماری کے بیچ بھارتی حکومت کوکشمیر میں ملازمین کو برطرف کرنے کے بجائے زندگیاں بچانے پر توجہ دینی چاہیے۔اس میں حیرت کی بات نہیں کہ اسکی غلط ترجیحات نے ہندوستان کو شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر محمد رفیق راتھر نے اس فیصلے کو نا انصافی قرار دے کر کہا کہ استاد کو اپنی صفائی کے لئے موقع نہ دینا ملک کے آئین کی روح کے خلاف ہے ۔ایس ٹی ایف بھارتی آئین کی دفعہ311 کے تحت بھارت مخالف سرکاری ملازمین کی شناخت کےلئے ٹرر مانیٹرنگ گروپ کے عہدیداروںکے ساتھ مل کر کام کرے گی ۔اسکے علاوہ ایس ٹی ایف دوسرے اداروں سے بھی مدد حاصل کرے گی۔ یہی ٹاسک فورس ایسے سرکاری ملازمین کا ریکارڈ جمع کر کے آگے مزید کارروائی کے لئے چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم کی سربراہی والی کمیٹی کو سپرد کرے گی ۔یہ کمیٹی گزشتہ سال بنائی گئی تھی ´۔ایس ٹی ایف کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ، سی آئی ڈی(جموں وکشمیر) کے چیف آر آر سوائن ہونگے ۔جبکہ دیگر عہدیداروں میں آئی جی پولیس جمو ں اور کشمیر ، محکمہ داخلہ ،محکمہ قانون ،انصاف اور پارلیمانی امور کے سیکریٹری اور متعلقہ محکمے کے نمائندے شامل ہونگے ۔ واضح رہے اسی طرح سے ملٹی ڈسپلینری ٹرر (دہشت گردی )مونیٹرنگ گروپ مارچ2019ءمیں قیام میں لایا گیا ۔ جس کا مقصد علیحدگی پسندوں یا عسکریت پسندوں کی کھلے عام یا خفیہ طور معاونت کرنے والے سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ کے خلاف کارروائی کرنا اور اسکے علاوہ ان تنظیموں کے افراد جو عسکریت پسندوں کی معاونت کرتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کرنا ہے۔

اس گروپ کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (سی آئی ڈی) کو ہی سونپی گئی ہے ۔ اسکے علاوہ اس گروپ میں جموں کشمیر پولیس ، آئی بی ، سی بی آئی ، این آئی اے اور انکم ٹیکس ڈیپارمنٹ کے عہدیداران بھی شامل ہیں۔کشمیر کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین بھی اپنی اظہار رائے کا استعمال سوشل میڈیا پرکرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ اسی طرح سے کئی اساتذہ کو بھی علیحدگی پسند تحریک کا ساتھ دینے کی بناءپر جیل جانا پڑااسی طرح سے اکتوبر2020ءمیں شوپیان کے سراج العلوم اسکول کے تین اساتذہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت عسکریت پسندوں کے مبینہ رابطے کے الزام میںگرفتار کر لیاگیا تھا۔

 اس سے قبل مارچ 2019ءمیں پولیس نے ایک نجی اسکول کے پرنسپل رضوان کو گرفتار کیا تھا ۔ بعد میں اُن کی موت پولیس تحویل میں ہی ہوئی ۔رضوان کے اہل خانہ نے پولیس پر قتل کا الزام عائد کیا تھا ۔کرونا وائرس کے بیچ ایسے فیصلے پر حکومت پر مین سٹریم سیاسی لیڈ ران اور دیگر سماجی کارکنان کی جانب سے تنقیدکا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے یک ٹوئٹ میں لکھا’عجیب ، جب وبائی بیماری سے نمٹنے کے لئے حکومت کے پورے اپروچ کی ضرورت ہے ،لیکن ایسا لگ رہا ہے وہ نظریے کی پالیسی ،نارملسی دیکھانے اور معلومات کی ناکہ پر توجہ دینے میں مصروف ہے ‘۔کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے اسے سخت گیر قرار دے کر کہاکہ ’سروس رولز کی خلاف ورزی کرنے والے ملازمین کے لئے پہلے ہی کئی قوانین موجود ہیں۔اور ایسے نئے حکمنامے جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

حالیہ حکم نامے کو بیوروکریٹس ایک آلے کے طور اپنے ماتحت ملازمین کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اوریہ غیر یقینی صورتحال کی ایک تلوار ملازمین کے سروں پر رکھی گئی ہے۔نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر محمد اکبر لون نے حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کسی ایسے شخص کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں جو اسکی پالیسیوں کو تنقید کرے۔

جموں کشمیر میں اس سے قبل بھی علیحدگی پسندوں کا ساتھ دینے والے ملازمین کو برخاست کرنے کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔2016ءمیں ہی آج اس فیصلے کی مخالفت کرنے والی محبوبہ مفتی کی حکومت نے ۰۰۱ سے زائد ملازمین کو برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شمولیت کی وجہ سے برخاست کیا تھا ۔تاہم ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو منسوخ کیا اور انہیں دوبارہ بحال کیا گیا ۔سب سے پہلے جموں کشمیر میں ایسے اقدامات1986ءمیں تب کے گورنر جگموہن نے اٹھائے جب انہوں نے تین پروفیسروں عبدالغنی بٹ ،عبدالرحیم اور شریف الدین کو ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام میں نوکری سے برخاست کیا ۔ اسکے بعد انہوں نے مسلم ایمپلائز فرنٹ کی بنیاد ڈالی جبکہ اس کے بعد حریت پسند لیڈران نے پرامن طریقے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے انتخابات میں شامل ہونے کے لئے مسلم یونائیڈفرنٹ کا قیام عمل میںلایا ۔لیکن1987 ءکے انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہوئی دھاندلی کے بعد ان لیڈران نے بندوق کا سہارا لیا اور انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے 1993ءمیں آل پارٹیز حریت کانفرنس وجود میں آئی ۔

 جس کے چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ بھی کئی مرتبہ رہے ہیں ۔1990ءمیں تب کے گورنر گریش چندر سکسینہ نے چار کے اے ایس افسران اور ایک انجینئر کو احتجاج مظاہرے کے الزام میں نوکری سے برخاست کر دیا ´۔جن میں سابق وزیر تعلیم اور پی ڈی پی لیڈر نعیم اختر بھی شامل تھے ۔ملازمین کے احتجاج کے بعد پانچوں کی نوکری کو بحال کر دیا گیا تھا۔1995ءمیں بھی تب کے گورنر کرشنا راﺅ نے25 ملازمین کو انہی الزامات کی بنیاد پر نوکری سے برطرف کیا تھا لیکن ان کے کئی ماہ تک احتجاج کے بعد سرکارکو نوکریاں بحال کرنا پڑیں۔ اب ایسا ہی اقدام حکومت کی جانب سے اس مرتبہ بھی کیاگیا جس کو قانونی شکل دی گئی ہے جو کہ پہلے ایسا نہیں تھا ۔

بھارت میں اظہاررائے کی آزادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سالReporters without Borders کی Press Freedom index رپورٹ کے مطابق بھارت 142ویں نمبر پر ہے اور اسے صحافیوںکے لئے خطرناک ملک قرار دیاگیا ہے۔جبکہ مودی دورہ حکومت میں اظہار رائے پر قدغنوں کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارت کی ساخت پہلے ہی خراب ہے ۔