کیا جان و مال سے جہاد کرنے کا حکم بھی اسی خدا کا نہیں ہے کہ جس کے گھر خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کے لیے ہمارے حکمران عوام کے زکوۃ کے پیسے تک کھا جاتے ہیں؟ چلو مان لیا ان کی جانیں بہت قیمتی ہیں کیونکہ ملک تو ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتا اور مال کی قربانی کیسے دے دیں اتنی محنت سے تو تجوریاں بھری جاتی ہیں۔
رہ گئے عام مسلمان تو وہ بیچارے فلسطین اور کشمیر کے دلخراش واقعات دیکھ کر تڑپ جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ مال سے جہاد کر لیا یا پھر زور قلم سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر لاچار اور بے بس مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کے پاس دولت اور میزائلوں کی کمی نہیں ہے۔ جن کو اتنے سنبھال کر رکھتے ہیں کہ خدانخواستہ کسی دوسرے کام ہی نہ آجائے۔
اہل فلسطین کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اتنے سالوں سے کوئی مرد مجاہد بھی مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا جو مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لئے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا۔ ایسا مرد مجاہد جویوسف بن تاشفین، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا نعم البدل ہوتا۔ کوئی بات نہیں اللّٰہ انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا یہ تو محض دوسرے مسلمانوں کی آزمائش کی جا رہی ہے۔
اصل میں مسلم امہ کی بے حسی ہے جو یہودیوں کا حوصلہ بڑھا رہی ہے ورنہ تو ان میں اتنا دم خم نہیں ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردیاں اور دعائیں بلاشبہ اپنے مظلوم بھائی بہنوں کے ساتھ ہیں لیکن وہ بھی سرحدی پابندیوں کی قید کی وجہ سے مجبور ہیں۔ لیکن رب کائنات تو کسی قسم کی سرحدیں پابندیاں نہیں لگاتا وہ تو حکم دیتا ہے کہ مصیبت زدہ مسلمانوں کی مدد کی جائے چاہے وہ کہیں بھی بستے ہوں۔ ہاں ہمارے حکمران بلند بانگ دعوؤں اور بیانوں کے میزائلوں سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایسے کعبہ کے طواف اور حجر اسود کے بوسوں کا کیا فائدہ جن سے مردہ ضمیر جاگ نہ سکے۔
ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اللہ بے نیاز ہے وہ اہل کشمیر اور اہل فلسطین کو بھی ایک دن ضرور سرخرو کرے گا۔ آمین۔
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجیب چیز کبھی صبح کبھی شام