کورونا کے بعد اب کالا فنگس ( دوسرا اور آخری حصہ)

مرکزی حکومت نے کوویڈ کے بارے میں جاری اپنی ایک پریس میٹنگ میں بتایا کہ اس طرح کے فنگل انفیکشن کا وقوع پذیرہونا فطری بات ہے ۔ میوکرمائکوسس اور کوویڈ ۔19 کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

نیتی آیوگ (صحت) کے ممبر وی کے پول کے مطابق “یہ ایک فنگس ہے جو گیلی سطحوں پر پائی جاتی ہے۔ جن مریضوں کو ذیابیطس نہیں ہوتا ہے ان میں یہ انفیکشن دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ کوویڈ- 19 کے مریضوں میں اس فنگل انفیکشن کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی بڑی وباءنہیں ہے اور ہم اپنی سطح پر کیسز کی نگرانی کر رہے ہیں۔”

مزید پڑھیے : کورونا کے بعد اب کالا فنگس ( پہلا حصہ)

لیکن ڈاکڑوں کے مطابق حالیہ عرصے میں اس فنگل انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔گروگرام میں واقع نارائن اسپتال کے نگران،شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ڈگ وجئے سنگھ کے مطابق ایمس میں (2014-2002 )ایک دہائی سے زیادہ میری پریکٹس کے دورانیے میں مجھے ایک سال میں اس فنگل بیماری( میوکر مائیکوسس )کے صرف دویا تین کیسز دیکھنے میں آئےہیں  لیکن آج ، میں ہر مہینہ اس طرح کے دو تین واقعات کی تشخیص کر رہا ہوں۔”

ڈاکٹرسنگھ نے مزید کہا کہ “اسٹیرائیڈس کوویڈ سے واقع ہونے والی اموات کو کم کرنے کے لئے ضروری دوائیں ہیں ، ہم ان مریضوں میں میوکرمائیکوسس ، گلوکوما اور موتیا کی بیماری کے بڑھتے ہوئے معاملات کے رجحان کو سرخ نشان لگانا چاہتے ہیں کہ جن کو کویڈ کے علاج کے دوران اسٹیرائیڈس دیئے گئے تھے۔ ان مریضوں کی اکثریت ذیابیطس کے پرانے مرض سے دوچار تھیں۔”

اس ضمن میں دیگرطبی ماہرین نے بھی  اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ممبئی کے سیون اسٹار اسپتال کے سربراہ اور گردن کے کینسر کے سرجن ، ڈاکٹر شیلیش کوتلھلکر نے  بتایا کہ “پچھلے دو دہائیوں میں ، میں نےصرف 12 مریضوں کاmucormycosis کاآپریشن کیا ہوں۔ تاہم ، پچھلے دو مہینوں میں ، میں روزانہ تین سے چار سرجریز اس فنگل انفیکشن سے لاحق بیماری کے کر رہا ہوں۔ میوکرمائیکوسس میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔”

طبی ماہرین  کے مطابق کوویڈ ۔19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کو mucormycosis کی علامات ، جیسے بند ناک (Stuffy Nose) ، سر درد ، منہ کے اوپری حصے میں سیاہ دھبے ، چہرے میں درد اور بینائی کی کمی پر نگاہ رکھنا چاہئے۔ Aspergillosis کے لئے ، عام علامات میں سانس لینے ، کھانسی ، اور تھکاوٹ شامل ہیں.  دیدووں پر دباؤ کا احساس اور مستقل سر درد گلوکووما کی بنیادی علامات ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

شدید کورونا انفیکشن والے افراد کے علاج کےلئے اعلی طاقت والے اسٹیرائڈز دیئے جاتے ہیں۔ یہ اسٹیرائڈز بہت سی ذیلی اثرات و بدبختیوں کا باعث بنتے ہیں بالخصوص کمزورقوت مدافعت کے حامل افراد کے لئے نقصان رسا ثابت ہوتے ہیں۔ اسٹیرائیڈس کے استعمال سےجگر کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔ اس سے بلڈ گلوکوز کی ریڈنگ بھی ایک وقت میں تین سے چار سو سے زیادہ بڑھ جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اسٹیرائیڈس کو اس بنیاد پر استعمال کرتے ہیں کہ اگر کورونا جان لیوا خطرہ ہے تو پھر یہ ایک چھوٹا سا نقصان ایک بڑے نقصان کو روکنے کے لئے ناگزیر ہے۔ یہ ہی  جوازاسٹیرائیڈس کے استعمال کاباعث ہے۔ لیکن حال ہی میں اسٹیرائیڈس کا اندھادھند اور بے دریغ استعمال کی اطلاعات عام ہیں۔ جب بیماری کاروایتی دوائیوں سے علاج نہیں ہوتا ہے تو انٹی بیوٹکس کے ساتھ اسٹیرائیڈس کواستعمال کیا جاتا ہے۔ معاملات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب علاج معالجے کی جعلی ویڈیوز شوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں ہےکہ دمہ کے مریضوں کو کورونا انفیکشن سے بچنے کے لئے اسٹیرائیڈس کا استعمال کرنا چاہئے۔

اسٹیرائیڈ زہر ہیں۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ ان کا اندھا دھند استعمال کرنا خطرناک ہے۔ کسی ڈاکٹر کی براہ راست نگرانی میں،براہ راست میڈیکل شاپ جاکر ایسی دوا استعمال کرنا چاہیے۔ڈاکٹر س کے مشورے اورنسخے کے بغیر اس کا استعمال اپنی مرضی سے کسی کوبھی نہیں کرنا چاہیے ۔

اب جو لوگ  کورونا روک تھام کے حصے کے طور پر طاقتور اسٹیرائیڈس لیتے ہیں ان کا مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے ان میں ہوائی فنگل انفیکشن ہونے کا زیادہ امکان پایا جاتاہے۔ ایسے افراد جو  ذیابیطس ، کینسر ، اور گردے کے انفیکشن جیسی بیماریوں سے متاثر ہیں اور جن کاکورونا انفیکشن مثبت آیا ہے ان میں اس بیماری سے متاثرہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ جو افراد ایسی بیماریوں کا سامنا کرتے ہیں ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

اب کیا کیا جائے؟

 ہمارا مدافعتی نظام ہمیں بہت سی متعدی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اگر یہ مضبوط ہو تو جب کورونا آتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح وہ لوگ جو سمجھتے ہیں  وٹامن سی کی گولیاں لیتے ہوئے  کوروناسے بچا جاسکتا ہے توغلط سوچ رہے ہیں۔  بدقسمتی سے کچھ لوگ قوت مدافعت پر یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ دواؤں پر بہت زیادہ یقین رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر بی پی ہی کو لجیئے۔ ہائی بی پی کو چلنے، نمک کو کم کرنے ، اور جذباتی کیفیات سے دور رہ کرکم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ضرورت ہو تو دوائیں بھی استعمال کی جانی چاہیے۔ ان سب کے بعد بھی کیا لوگ  بی پی کا شکار نہیں ہیں؟ گولیاں کھا کر اسے رفع کردینے والی سوچ نقصان دہ ہوتی ہے۔ قوت مدافعت کو بہتر بنانے والے اسباب و ورزش پر عمل درآمد کیا جائے تو گولیوں سے چھٹکارا ممکن ہے۔ ذیابیطس کی صورت میں ورزش کرنا بے حد ضروری اور سود مندبھی ہوتا ہے ۔

دن میں چالیس منٹ تک تیز چلیں۔ کم کاربوہائیڈریٹ ،زیادہ فائبر اور ہاضم غذائیں استعمال کریں۔ شوگر کے مرض میں  کھانے سے پہلے کچھ مہینوں کے لئے انسولین کے انجیکشن کے بارے میں سوچنا اچھا نہیں ہے۔

خلاصہ گفتگو

 ہر ایک کو سیاہ فنگس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں سے بچو جن کو کینسر ، ذیابیطس ، گردوں کی پریشانی ہو اور وہ سنگین طور پر کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور جنھوں نے اسٹیرائیڈس لی ہیں ، اور وہ جنہوں نے مختلف ویڈیو دیکھنے کے بعد خوف سے غیر ضروری طور پر اسٹیرائیڈس لیے ہیں۔ چہرے کے پٹھوں کی بے حسی اور آنکھوں کی لالی جیسے علامات نظر آنےپرفوری طور پر اسپتال میں داخل ہوجائیں۔ غیر ضروری طور پر چہرہ بے شکل ہو جائے گا سوچ کرتناؤ کا شکار نہ ہوں۔

دونوں تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش میں ابھی تک اس طرح کے واقعات کی کوئی اطلاع نہیں  ہے۔ دہلی ، بنگلور اور احمد آباد جیسے شہروں میں 10 سے 20 اس طرح کے کیسز  رپورٹ ہونےکی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

جامع حل:

 اگر آپ قوت مدافعت پر یقین رکھتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ ایک نوے سال کا بوڑھا بھی اچھا ہوسکتا ہے۔  صحت مند کھانے ، ورزش ،پرسکون نیند، خوف سے بچنے دور رہنے اور زندگی سے لطف اندوز ہوکر قوت مدافعت کو بڑھاتےہوئے کورونا ہو یا سیاہ فنگس یا کوئی اور بیماری پرفتح حاصل کرسکتےہیں۔ اگر بیماری کا واحد علاج دوا ہے تو پھر دوا کی لازمی ضرورت ہے۔

ایک بار پھر دہرادوں کہ یہ خیال غلط ہے کہ دوا ہی علاج کا واحد راستہ ہے۔ .. ایک بیماری .. اس کی دو دوائیں .. پھر بونس کے طورپرمزید دو اور بیماریاں .. ان کے لئے اورچار  دوائیں .. اس طرح شیطانی دائرے اور وسوسوں کے جال میں آپ پھنستے چلے جائیں گے . خبردار لوگوں! ابھی جاگو! احتیاط علاج سے بہتر ہے۔احتیاط کو مضبوطی سے پکڑ لو۔افواہوں اور بے جا اندیشوں کا شکار نہ ہوں۔ کیوں کہ آپ جانتے ہیں بے جا اندیشے موت سے پہلے آدمی کو بے موت ماردیتے ہیں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔