عید کے رنگ مہندی کے سنگ

برصغیر کی ثقافت میں خوشی کے مواقع پر  مہندی لازم و ملزوم ہیں۔ پھر جب بات عید کی ہو تو مہندی کے بغیر عید کے رنگ ممکن ہی نہیں ہیں۔ مہندی نے بھی ترقی کی بتدریج منازل طے کیں ہیں۔ پہلے زمانے میں مہندی کے پتوں کو پیس کر مہندی تیار کی جاتی تھی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ڈبے والی مہندی آئی ،جس کو گھول کر مٹھی میں بند کر کے سو جاتے اور صبح ہاتھ پر بطخ بنی ہوتی تھی۔

پھر اس میں جدت آئی اور اسے لئی کی صورت گھول کر تنکے سے ہاتھ پر نقش و نگار بنائے جاتے۔ مہندی کی دنیا میں انقلاب “کون” کی ایجاد کےساتھ وارد ہوا۔ کون مہندی سے بہت ہی پیچیدہ ڈیزائین بھی آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی ” کون”  کی وجہ سے باقاعدہ حناء آرٹ وجود میں آیا ہے۔ جن میں ہندوستانی، عربی، موراکن، اور سادہ مہندی وغیرہ شامل ہے۔

 ڈیئزائنگ کی  مزید تفصیل میں جائیں تو انگلیوں کے لئے الگ، ہتھیلی کے لئے الگ، ہاتھ کی پشت لے لئے الگ پاؤں کے الگ ڈیزائین متعارف کئے گئے ہیں۔عید کی خریداری  میں لازمی حصہ مہندی کا ہوتا ہے بلکہ خریداری فہرست میں سب سے اوپر مہندی ہوتی ہے کہ کہیں بھول نہ جائے اور عید کا رنگ پھیکا نہ رہ جائے۔

چاند رات سے قبل بار بار تصدیق کی جاتی ہے کہ مہندی آ گئی؟  اسے چاند رات کے لیے سنبھال کر رکھا جاتا ہے ۔ دوسری بڑی فکر ہوتی کہ مہندی سے ہاتھوں پر نقش و نگار کون بنائے گا۔آس پڑوس میں کوئی “باجی” ڈھونڈی جاتی ہے۔ خاص طور پر سفارش کی جاتی کہ ہم چاند رات آئیں گے مہندی لگانے کے لئے۔ عید کی رات مہندی لگانے والے چھ قسم کے افراد ہوتے ہیں۔

پہلی قسم  ننھی منی بچیوں کی ہے۔ جو ہر روز پڑوس میں جا کر باجی سے پکا کر کے آتیں ہیں کہ عید کی رات وہ مہندی لگانے آئیں گی۔  ادھر چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا ہے ساتھ ہی مہندی لگانے کے لئے آس پڑوس میں روانہ ہو جاتی ہیں۔ پہلے آو پہلے پاو کی بنیاد پر مہندی لگانا شروع ہوتی ہے۔ بے حد ادب کے ساتھ ایک ایک ہاتھ پر مہندی لگتے اپنی باری کا انتظار کیا جاتا۔ ایسے میں پاوں سو جانے کی صورت میں “چونڈی” کاٹنے کی رضاکارانہ خدمات بھی انجام دی جاتی ہیں۔ اگر کسی کو پیاس لگ جاتی تو گلاس سے خود پانی پلایا جاتا ہے۔ نہایت ہی تعاون کی فضا قائم ہوتی ہے۔مہندی والی باجی کی مسلسل آواز آتی رہتی ہے ” ہاتھ مت ہلاو” ڈیزائن خراب ہو جائے گا”۔

یہ اتفاق ہی ہے کہ مہندی لگاتے ہوئے نیند کا جھونکا آ جاتا ہے یا مٹھی خود بخود بند ہو جاتی اور مہندی کا ڈیزائین گڑ بڑا جاتا ہے جس کو بہت حسرت سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر زیادہ غم نہیں کیا جاتا اور صبر سے مہندی سوکھنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ مہندی کا رنگ خوب چڑھنے کے لئے متعدد ٹوٹکے استعمال  کئے جاتے ہیں۔ مثلاء چینی اور لیموں کا شیرہ بنایا جاتا ہے ۔ جیسے ہی مہندی خشک ہونے پر اس پر روئی کی مدد سے ہلکے ہلکے لگایا جاتا ہے۔ یا لونگ جلا کر اس پر ہاتھ پکڑا جاتا ہے۔ ویکس بھی لگائی جاتی ہے۔ یہ ٹوٹکے عموما تھوڑی بڑی عمر کی سمجھدار بچیاں کرتی ہیں جو کہ دوسری قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔

آج کل ایمرجنسی کا دور دورہ ہے ۔ کیا اسپتالوں میں کیا بازاروں میں اسی لئے مہندی بھی ایمرجنسی خریدی جاتی کہ جلدی سے رنگ آ جائے حالانکہ اس میں کیمیکل جلد کے لئے خطرناک بھی ہیں۔

تیسری قسم  نوجوانی کی دہلیز پر موجود لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ جن میں سے کچھ منگنی شدہ ہوتی ہیں اور باقی  انہیں رشک و حسد سے دیکھتی ہیں۔ عید کی صبح مہندی کے رنگ کا بغور موازنہ کیا جاتا ہے۔ جس کی مہندی کا رنگ خوب رچا ہو وہ نامعلوم ٹوٹکے کی کرامت بتاتی ہے۔ باقی سب دل میں کڑھتی ہیں کہ رات کو ہی بتا دیتی۔ نوجوانی کی دہلیز پر موجود لڑکیوں کی سہیلیاں ان کی مہندی کے رنگ سے ان کی ساس اور ہونے والے شوہر کی محبت بھی ماپ لیتی ہیں (ہمیں تو آج تک اس پیمانے کی سمجھ نہ آ سکی)

سسرال سے آئی مہندی کی الگ ہی مہک ہوتی ہے۔ اس کا رنگ بھی الگ محسوس ہوتا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ شادی سے قبل  یہ خوب رچتی ہے۔ شادی کے بعد خدا معلوم کیا ہو جاتا ہے۔ چوتھی قسم  ان خواتین کی ہوتی ہے جو نئی نئی شادی شدہ ہوتی ہیں اور وہ بھی خوب ہاتھ بھر بھر کر مہندی لگاتی ہیں۔ کہ یہی تو دن ہیں۔

پانچویں قسم بچوں والی ماوں کی ہوتی  ہے۔ جن کے دل میں مہندی لگانے کے بہت سے ارمان ہوتے ہیں مگر کاموں کی زیادتی اور وقت کی تنگی کی وجہ سے وہ لگا نہیں پاتیں۔ ایسی خواتین کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بہت سے کام مثلا کپڑے استری کرنا ، ازار بند ڈالنا، جوتے تیار کرنا وغیرہ  پہلے سے کر لیا کریں۔ تاکہ عید کی رات صرف پکانے کا کام ہی ہو۔ اور وہ  مہندی لگانے کے لئے وقت نکال سکیں۔ بجائے ٹھنڈی سانسیں لے لے کر میاں اور ساس کو فریز کرنے کے، اپنے کام مستعدی سے نبٹا لیں۔ آپ کا اپنی ذات پر بھی حق ہے۔ اس لئے اپنے فہم و فراست کا مظاہرہ کریں۔ ساری رات کام کرنے سے عید کے دن آپ کو میڈل نہیں مل جانا۔خیر ہم  مہندی کی بات  کر رہے تھے۔

چھٹی قسم  بڑی عمر کی خواتین کی ہے جن  کو مہندی لگانے کا بچیوں کی طرح شوق ہوتا۔ جو ہر کچھ دیر بعد بہو یا بیٹی کو آواز دیتیں ” ارے کوئی مجھے بھی مہندی لگا دو مجھے نماز کے لئے اٹھنا بھی ہے”  ۔ یہ درپردہ اشارہ ہوتا کہ ان کو نیند آ رہی ہے۔ جب کوئی بھی  فارغ نہیں ہوتا تو غصے میں مٹھی والی بطخ بنا کر سو جاتی ہیں۔

عید کی صبح دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرتے مہندی کی خوشبو بہت بھلی محسوس ہوتی ہے۔