اشرف صحرائی کی دوران حراست موت تشویش کی لہر

ادہم پور کی کوٹ بلوال جیل میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید تحریک حریت کے چیئرمین محمد اشرف خان صحرائی جموں کے گورنمنٹ میڈیکل اسپتال میں 6 مئی کو انتقال کرگئے ۔اس سے کچھ گھنٹے قبل ہی اُن کی بگڑتی صحت کے بعد انہیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جس کی اطلاع اُنکے اہل خانہ کو دی گئی تھی ۔

 ۸۷ سالہ اشرف صحرائی کو گزشتہ سال جولائی میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ سید علی شاہ گیلانی سے کافی قریب رہے صحرائی کو ۸۱۰۲ءمیں تحریک حریت کی شوریٰ نے تین سال کے لئے نیا چیئرمین مقرر کیا ۔ سرکار مخالف سرگرمیوں کے سب سے ۵۶۹۱ءمیں صحرائی کو جیل جا نا پڑا ۔ اور تب سے لے کر انہوں نے اپنی زندگی کے لگ بھگ ۶۱ سال جیل میں گزارے ہیں۔ صحرائی کو اپنے آبائی گاﺅں ٹکی پورہ لولاب میں ہی سپرد خاک کیا گیا ۔۰۲۰۲ءمیں صحرائی کی گرفتاری سے دو ماہ قبل ان کے بیٹے جنید صحرائی سرینگر کے نواکدل علاقے میں فورسزکے ساتھ ساتھی سمیت جھڑپ میں مارے گئے ۔ انہوں نے ۸۱۰۲ءمیں صحرائی کے چیئر مین بننے کے بعد ہی عسکریت صف میں شمولیت اختیار کی تھی ۔

نیوز پورٹل دی پرنٹ کے ساتھ بات کرتے ہوئے صحرائی کے فرزند نے کہا کہ’وہ ہمیں ہر ہفتے دو مرتبہ فون کرتا تھا لیکن پچھلے دس روز سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو اس نے کہا کہ اسکی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ اشرف صحرائی کئی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ صحرائی کے انتقال پر کئی مین اسٹریم سیاسی لیڈران نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے حکومت پر سوالات بھی کھڑے کئے ہیں ۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی صدر محبوبہ مفتی نے اپنی ایک فیسبک پوسٹ میں لکھا ”اشرف صحرائی کی اچانک موت کے بارے میں جان کر بہت صدمہ ہوا ۔ان کی طرح ان گنت سیاسی قیدیوں اور جموں وکشمیرکے دیگر نظر بندوں کو بھی اپنے نظریا ت اور افکار کے لئے مکمل طور جیل میں ڈالنا جاری ہے ۔

آج کے ہندوستا ن میں اختلاف رائے کی وجہ سے ایک شخص اپنی زندگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔پوسٹ میں مزید انہوں نے لکھا ’اس طرح کے خطر ناک حالات میں کم سے کم بھارتی حکومت زیر حراست افراد کوفوری طور پر پیرول پر رہاکر سکتی ہے تاکہ وہ واپس اپنے گھروں کولوٹ سکیں ۔

پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے حکومت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ’اسے قید میں کیوں مرنا پڑا نہ کہ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں میں ۔کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ علیل بوڑھا شخص ریاست کے لئے خطرہ ہے ۔

میں تنقید نہیں کر رہالیکن برائے کرم محاسبہ کریں ۔صحرائی صاحب ایک سیاسی رہنما تھا دہشت گرد نہیں ‘۔آل پارٹیزحریت کانفرنس نے اظہار تعزیت کرتے ہو ئے کہا کہ’ جموں کشمیر کے لوگوں نے ایک مخلص قابل اور ایماندار لیڈرکوکھو دیا ہے ‘ ´۔ان کے علاوہ ڈاکٹر فارو ق عبداللہ ، الطاف بخاری اور دیگر سیاسی لیڈران نے اظہار تعزیت کیا ۔

ا دھر پاکستان کے وزیر اعظم نے ان کی موت پر اظہار تعزیت کی ہے ۔اشرف صحرائی کے ایک فرزند راشد صحرائی نے دی وائر نیو ز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”ان کا طبی معائنہ اور علاج کے لئے تین درخواستیں دائر کی تھیں ،جس میں انہیں مزید دیکھ بھال کے لئے جموں یا سرینگرکی جیلوں میں منتقل کر نےکی درخواست کی گئی تھی اور درخواست کی گئی تھی کہ اہلخانہ کو ا ن سے ملنے دیا جائے ۔

راشد نے کہا کہ جج درخواستوں پر نظر ثانی کےلئے دیر کرتا رہا ۔صحرائی کی موت کے بعداب دیگر مقید سیاسی لیڈران کے رشتہ داروں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سیاسی لیڈران ، مختلف تنظیمیں اور مقید لیڈرا ن کے رشتہ دار رہائی کی مانگ کر رہے ہیں ۔آل پارٹیز حریت کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ شاہدالاسلام کی دختران نے وزارت داخلہ کو ایک خط لکھ کر ان کی رہائی کی درخواست کی ہے ۔خط میں بتایا گیا ہے کہ وہ وہ کرونا وائرس کا شکار ہو ئے ہیں اور کئی دنوں سے وہ بیما ر ہیں ۔

 رواں سال جنوری میں دختران ملت کی صدر آسیہ اندرابی کے فرزند احمد بن قاسم نے پاکستان میں اپنی والدہ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ۔آسیہ اندرابی اپنی دو ساتھیوں کے ہمراہ ملک کے خلاف بغاوت کے الزام میں این آئی اے کی تحویل میں ہے۔اس سے ایک ہفتہ قبل حریت لیڈر ایاز اکبر کی اہلیہ کا انتقال سرینگر میں ہوا ۔ تاہم ایاز اکبر کو تب بھی نہ رہائی ملی نہ پیرول پر رہا کیا گیا ۔ وہ اس وقت تہاڑ جیل میں مقید ہیں ۔ ۹۱۰۲ءمیں جماعت اسلامی جموں کشمیر کے رکن غلام محمد بٹ اترپردیش کے الہ آباد میں انتقال کر گئے ۔ گھر والوں نے ان سے آخری مرتبہ جولائی ۷۱۰۲ءمیں بات یا ملاقات کی تھی۔ کشمیر ی سیاسی لیڈران کی حالت کو دیکھتے ہوئے مین سٹریم لیڈران اور دیگر تنظیموں کی جانب بھی سیاسی قیدیوں ک رہائی کی مانگ بڑھ گئی ہے ۔

پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم مودی کو ایک خط میں سیاسی لیڈران کی رہا ئی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ۵ اگست ۹۱۰۲ءکے بعد ہزارو ں کشمیر ی اور سیاسی قیدی ملک کی مختلف جیلوں میں بند ہیں اور کوویڈ کی صورتحال سے انہیں تشویش ناک حالات درپیش ہیں “۔محبوبہ مفتی نے آخر پر وزیر اعظم سے امید ظاہر کرتے ہوئے التجا کی کہ ان قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے ۔ادھر سپریم کورٹ نے کورنا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظرجیل میں قید چنندہ قیدیوںکو ۰۹ روز کے لئے پیرول پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

 سپریم کورٹ نے سبھی ریاستوں سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کےلئے کہا ہے اور وہی کمیٹی طے کرے گی کہ کس قیدی کو رہا کیا جائے اور کسے نہیں ۔ اس سے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم ہو گی ۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق ۹۱۰۲ءمیں جموں کشمیر میں8664 جیلوں میں لائے گئے تھے ۔ جبکہ ۱۳ دسمبر ۹۱۰۲ءکو 2910 کی گنجائش کے مقابلے میں 3689 افرادجیلوں میں قید تھے ۔جن کی تعداد ایک سال بعد ۱۳ دسمبر ۰۲۰۲ءکو 4131 تک پہنچ گئی۔جموں کشمیر میں کل ۵۱ جیلیں ہیں جن میں ۰۱ ضلعی، دو سب جیل اور ایک اسپیشل جیل ہے ۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ۱۱ مارچ کو راجیہ سبھا میں پیش کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق ۵ اگست ۹۱۰۲ءکے بعد 7375 افراد کو گرفتار کیاگیا تھا جن میں سے اب451 بند ہیں ۔ ’دی کوینٹ‘ ویب پورٹل کے مطابق اس وقت جموں کشمیر کی جیلوں میں 3426 کی مجموعی گنجائش کے خلاف 4550 افراد مقید ہیں۔ پورے بھارت میں کوویڈسے بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی یشن نے بھی حکومت سے تہاڑ جیل میں مقید قیدیوں کو واپس کشمیر کی جیلوں میں منتقل یا پیرول پر رہا کرنے کی مانگ کی ہے ۔اب دیکھنے والی بات ہو گی کہ کرونا وائرس قہر کے بیچ کشمیرکے سیاسی قیدیوں کو ان مانگوں کے بعد رہائی حاصل ہو تی ہے نہیں ۔