عید کی حقیقی خوشی

عید کے لفظ میں ہی خوشی کے معنی پوشیدہ ہیں ۔ دل کو جس چیز سے خوشی حاصل ہو جائے تو کہتے ہیں کہ آج تو عید ہوگئی ۔ کان کھڑے ہوگئے یہ سن کہ ایک شہر کراچی کے کسی گنجان علاقے میں جہاں ضمنی انتخابات کے سلسلے میں کام ہو رہا ہے ۔ لوگوں کو دکھایا گیا گھروں میں عورتوں ، بچوں اور مردوں کو دکھایا گیا ہے ان کے نلکوں کو دکھایا گیا کہ جو کہہ رہے تھے آج تو عید سے پہلے ہماری عید ہوگئی خوشی کس بات کی تھی؟ تو پتا چلا کہ آج دو تین مہینوں بعد نلوں میں میٹھا پانی آیا ہے ورنہ کھارا پانی بھی بھاری قیمت سے لا کر جی رہے تھے ۔

سب لوگ انتہائی خوش مستعد اور پانی کو جمع کرنے کے چکروں میں لگے ہوئے تھے گو یا انہیں احساس ہے ہم سب جانتے ہیں کہ عید الفطر روزوں کے بعد مسلمانوں کا ایک اہم تہوار ہے اور اللہ نے دو خوشیاں عید کے حوالے سے مسلمانوں کو دی ہوئی ہیں ایک روزوں کا انعام میٹھی عید کی شکل میں اہم فرض روزے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد اور دوسری عید الاضحی یعنی بقر عید جو حج اور قربانی کی عید کہلاتی ہے جن کا مسلمانوں کو بڑا انتظار رہتا ہے ۔

شکر الحمدللہ کے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ خوشیاں منانا نصیب فرماتا ہے ورنہ عام طور پر ذہنی ، قلبی سکون کو خوشی کے موقع پر بلکہ انتہائی خوشی ، اچانک خوشی کے موقع پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری تو آج عید ہو گئی ۔ برسوں بعد کوئی عزیز رشتہ دار ملے یا دلپسند چیز وافر مقدار میںا چانک مل جائے تو کہتے ہیں کہ آ ج عید ہوگئی ‘مبارک ہو ‘ مگر اس اچانک خوشی کا مزہ بھی اسی وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب بندہ اس کا شکر ادا کرتا ہے تو گویا عید کی اصل یا حقیقی خوشی وہ احساس ہے جو ہمیں تسکین عطا فرمایا ہے ، کان مبارک باد سن کر خوش ہو جاتے ہیں ۔ جب ہمارے رب نے ہمیں یہ دو تہوار عطا کئے ہیں تو ہمیں اس کا شکر ادا کرتے ہوئے نہ صرف خوشی خوشی اپنانا چاہئے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہئے کیونکہ خوشیاں بانٹنے سے دگنی ہو جاتی ہیں جب کہ دکھ درد بانٹنے سے کئی گناہ ہو جاتی ہیں ۔ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ دوسروں کوخوش دیکر خوشی بندے کو حاصل ہوتی ہے وہی اصل حقیقی خوشی ہوتی ہے ۔ ماں باپ خود مشقت میں پڑ کر بھی اپنی اولادوں اور انکی اولادوں کو ہر دم خوشیاں بانٹتے ہی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ ان سے سچی محبت کرتے ہیں اور جن سے محبت کرتے ہیں انہیں کبھی دکھ دینا نہیں چاہتے بلکہ ان کے غم سمیٹ لیتے ہیں اور یوں انہیں حقیقی خوشی ملتی ہے ۔ خوشی کا کوئی بھی موقع ہو لوگ مبارک باد دیتے ہیں ۔مبارک باد کیوں دیتے ہیں؟ مجھے بھی اس کا مطلب کافی دنوں تک معلوم نہیں تھا پھر سمجھ آیا کہ ہر خوشی کے موقع پر لوگ مبارک باد اس لئے دیتے ہیں کہ اس کی وہ خوشی اللہ ہمیشہ جاری و ساری رکھے (آمین)۔

یعنی نوکری ہو ، بیٹا بیٹی ہو کوئی رشتہ ہو۔ صحت یابی ہو کیسی مشکل کا حل ہو جانا دوبارہ دوستی کا ہو جانا ہو ہر موقع خوشی کا ہوتا ہے ۔ عید ہو بقر عید ہو ، روزہ رکھائی ہو ہمیشہ ہی مبارک باد دی جاتی ہے ہمیں یہ آدابِ زندگی خود بھی سیکھنا چاہئے اور دوسروں کو بھی سکھانا چاہئے کیونکہ اس طرح معاشرہ خوشحال ہو تا ہے ۔ دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا اور یہ دعا دینا ایک بہت ہی بڑی سعادت کی بات ہے جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے !!ہم کیوں کسی کو پریشان کریں ۔ حسد کریں ، جلیں بھونیں اللہ کی تقسیم پر شاکر رہیں اور جو مل گیا اس پر قناعت کریں تو ہی اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔

دوسروں کا حق مار کر ، چھینا جھپٹی کرکے خوشیاں نہیں لی جا سکتیں ۔ ذرا سوچئے!! اپنی خوشی کی خاطر اگلے کو دکھ دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ کسی کا پرس چھین کر ، موبائل لوٹ کر ، ناپ تول میں ڈنڈی مار کر ، کرپشن کرکے ، رویوں میں بگاڑ کر کے ہم کیا ظلم نہیں کرتے ؟ خوشیوں پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟ اپنوں کو دکھ دیکر معمولی معمولی باتوں پر یہاں تک کہ سستی اور کاہلی دکھاتے ہوئے کسی کے اہم کام کو ٹالے رکھنا بھی ظلم ہے بلکہ گناہ ہے تو ہمیں اس سے سچی اور حقیقی خوشی کیسے نصیب ہوگی؟ ٹوٹا ہوا دل کبھی خوش نہیں رہ سکتا ۔ دے کر جتلانا ، بری آواز میں بولنا ، طعنہ دینا ، منہ بنانا تک اگلے کو خوار کردیتا ہے تو سوچیں ہم خود کیا کررہے ہیں کیسے خوش رہ سکتے ہیں ؟

دل توڑ دیں کسی کا یہ زندگی نہیں ہے

دکھ لے لیں ہم کسی کا، کیا یہ خوشی نہیں ہے ؟

رمضان کا مہینہ ہمیں تقویٰ سکھاتا ہے جب ہم اپنی بھوک پیاس پر قابو پا سکتے ہیں تو الحمد للہ اپنی نیت خا لص رکھتے ہوئے ہر دم اپنے نفس قابو پاسکتے ہیں صرف روزہ رکھ کر نماز قر آن پڑھ کر عبادت کو دہر ا دہر ا کر ہی تقویٰ حاصل نہیں ہوتا بلکہ برائیوں سے حتی الامکان بچ کر ہی تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ ہم کہاں کہاں بے صبر ہو کر کیا کیا ماحول خراب کرتے ہیں ۔ گالیاں دیکر ، بلند آواز میں اگلوں کو نیچا دکھا کر یا کسی کو بے عزت کرکے ہم کب خوش رہ سکتے ہیں ۔ پس سچی خوشی کیلئے ضروری ہے کہ دوسروں کی خوشیوں کی بھی قدر کی جائے دوسروں کو عزت دی جائے ان کے مقام اور مرتبے اور رشتے سے بڑھ کر رضائے الٰہی کیلئے ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا جائے عزت و تو قیر دی جائے کسی کو بھی معمولی نہ سمجھا جائے کیونکہ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور سب پر اجر ہیں تو پھر اترانا کس بات کا ؟ ہر دم ہر موقع پر مقصد حیات کو یاد رکھتے ہوئے حقوق العباد اور حقوق اللہ نبھانے کا نام اصل خوشی ہے۔ یقین مانیں عزت سے آپ جناب کہہ کر بات کرنا ، نرم لہجے میں بات کرنا ، سختی کا جواب بھی نرمی سے دینا ، کسی کے سر پر ہاتھ پھیر دینا ، بیٹا کہہ کر بلانا، بیٹی کہنا ، برخوردار کہنا دل موہ لیتا ہے آپ ہی آپ عزت کرنے کو جی چاہتاہے تو سمجھو یہ ہے سچی خوشی جو عید سے بڑی ہے ۔

سب کچھ ہوتے ہوئے آپ کا رویہ بُرا ہو اآپ کے چہرے پر مسکراہٹ نہ ہو ایک انجانا پن ہو رو کھا انداز ہو تو وہ نعمتوں کے ہو تے ہوئے بھی خوشی سے خالی ہوگا ۔ جب کے تنگی اشیاء کے باوجود گرمجوشی ہو ، پیار ہو ، محبت کی ہمدردی کی سچی خوشی ہو آنکھوں میں پیار کی جھلک اور آواز میں محبت کی مٹھاس ہو خوش مزاجی اور گرم جوشی سے ملنا ایک الگ ہی خوشی دیتا ہے دوروپے عید میںبھی وہ خوشی دے جاتے ہیں جو دو ہزار میں نہ ہو ۔ تو گویا ساتھیوں ہمیں بچپن میں معمولی معمولی چیزوں کی خوشیاں اس لئے زیادہ لگتی تھیں کہ وہ بے لوث تھیں ۔ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں مگر بڑے ہو کر یہی بچے بڑے پہلے جیسے روئیے نہیں دکھاتے کیونکہ اب وہ سمجھ رکھتے ہیں جذبات کو سمجھتے ہیں لیکن یہ بات انہیں خود یاد رکھنی چاہئے کہ خوشیاں شیئر کرنے سے دو گنی اور دکھ درد شیئر کرنے سے خوشیاںضرب کھا کرکئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں اور یوں خوشیوں کا انمول خزانہ ہاتھ آتا ہے چھوٹے چھوٹے تحائف ، میٹھے بول ، اچھے الفاظ ، اچھا انداز سچی نیت اور محبت کے ساتھ کتنا ماحول خوشگوار بنا دیتا ہے یہی سچی خوشی گویاعید ہے کھانا پینا اچھا لگتا ہے۔

معمولی چیزیں بھی مزہ دے جاتی ہیں ۔ گویا پیار ہی پیار واقعی اللہ تعالیٰ کتنے عظیم ہیں جنہوں نے ایک فیصد پیار ہی زمین پر بھیج کر انسانوں کو نہال رکھا ہوا ہے اور 99فیصد پیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے اور ہمارے لئے زمین کو دسترخوان کی طرح سجایا ۔ رشتوں کی شکل میں بیش و بہا نعمتیں دیکر ہمارے رزق کو چار چاند لگائے ۔ اتنی آزمائش زدہ جگہوں پر بھی ہماری مدد فرمائی ہمیں وبائی امراض زمینی آسمانی آفات سے بچا کر ہمیں زندہ رکھا ۔ سبحان اللہ رمضان نصیب فرمایا ۔ روزے رکھنے کی توفیق دی اور عید جیسی نعمت عطا فرمائی ، انشا ء اللہ فرمانے جا رہا ہے تو ہمارا دل کتنا شاد ہے۔ ایک احساس شکر گزاری اور خوشی کا احساس ہمیں نہال کئے دیتا ہے یہی ہمارا انعام ہے اور یہی ہماری سچی اور حقیقی خوشی ہے جس کا جتنا ہی شکر کیا جائے کم ہے ۔ ہم اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھیں پیار بانٹیں ۔ ہمیں تو اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کو دنیا سکھایا گیا ہے تو آج دنیا میں جہاں جہاں پریشانی ہے بیماری ہے ضرورت ہے انکی مدد کرنا ان کے لئے اپنے لئے دعائیں کرنا اور ہر لحا ظ سے تعاون کرنا ہی صحیح معنوں میں انسانیت سے محبت کرنا اور پیار ہے ۔ نفرتوں کو ، کدورتوں کو ، لغزشوں کو نکال پھینک ڈالئے ایک دوسرے کو سہارا دیجئے پیار دیجئے ، محبت کیجئے کہ یہ اللہ کا رنگ ہے کہ

جس نے زمین پہ پیار اتارا، وہ خود ہوگا کتنا پیارا ؟

پیار کا اس کے نہیں شمار، دنیا ہے بس پیار ہی پیار

جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں آسکتیں اسی طرح ایک دل میں مخالف جذبے نہیں آسکتے سوچئے؟!!

نفرتوں کو جو ہر دم سینے میں پنہاں رکھتے ہیں

جانے وہ لوگ محبت کو کہاں رکھتے ہیں ؟

کر بھلا ہو بھلا اپنے اندر انسانیت جگائیے اور محبت اور یقین کے ساتھ زندگی میںآسانیاں بانٹئے کیونکہ زندگی ایک مسلسل جہاد ہے ہر دم برائی اور نفرت کے خلاف ہماری زبان نہیں کردار بولے ۔ ہمارا عمل پیہم ہو ہر برائی کے خلاف ہوتو سمجھو کامیابی ہی ہمارا مقدر ہے اور وہی سچی خوشی ہے گویا عید ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ ہم دوسروں کو ہروقت نشانے پر رکھ کر اپنے آپ کو بری سمجھیں ۔ سچی اور حقیقی خوشی ہمیں جب ہی مل سکتی ہے جب اللہ کی ذات پر یقین ہو ، ہمارا عمل صالح ہو ،ا پیہم ہو تو ہی کامیابی ہے زندگی کی اور وہ اصل خوشی ہے گو یا عید ہے بقول شاعر مشرق علامہ اقبال

یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ، ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

الحمد للہ اس مرتبہ عید کی سچی خوشی ہم تمام تر ایس او پیز پر عمل کرکے ، سچے دل سے توبہ استغفار کرتے ہوئے تمام لوگوں کیلئے دعائیں کرتے ہوئے اور وہ بھی خلوصِ دل سے دعائیں کرتے ہوئے حاصل کر سکتے ہیں بلکہ آج سے ابھی سے رب کو منانے کی بھرپور کوشش کریں تا کہ ہمیں اللہ پاک عید کی حقیقی خوشی عطا فرمائے ۔دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش ہوںالحمد للہ کہیں اور اپنے لئے اور دوسروں کے لئے رب سے سکونِ قلب اور خوشیاں مانگیںبلکہ دونوں جہاں میں عافیت مانگ مانگ کر خوش ہوتے رہنا ہی میری عید ہو اور حقیقی خوشی بھی۔ آمین