جرم صرف مہاجر کہنا ہے سمجھنا نہیں

ہجرت اپنے علاقے سے کسی اور علاقے کی جانب کوچ کر جانے کو کہا جاتا ہے۔ اس کوچ کر جانے کا مقصد و مدعا کچھ  بھی ہو سکتا ہے۔ ہجرت بسلسلہ روز گار، کسی بھی قسم کے عشق کا سودا دل و دماغ میں سما جانا، حالات کی ناسازگاری کا نقل مکانی پر مجبور کر دینا، اپنے ہی وطن میں اپنوں کے ہاتھوں زندگی کو عذاب بنا دیا جانا، کسی عظیم مقصد کے فروغ کیلئے کسی دوسری سر زمین کو اپنے لئے زیادہ زرخیز محسوس کرنا یا پھر اللہ کے دین کی تکمیل کیلئے کسی ایسی سر زمین کا میسر آ جانا جہاں اللہ کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزارنا زیادہ مناسب لگتا ہو۔ اس جہانِ فانی میں ہر قسم کے “مہاجر” پائے جاتے ہیں جو اپنی اپنی احتیاجات کی تسکین کیلئے آج بھی اپنی اپنی سر زمین وطن کو خیر آباد کہہ کر دیار غیر میں زندگی کی سانسوں کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

ہجرت کی ان سارے اقسام میں، اسلامی نقطہ نظر کو سامنے رکھائے تو صحیح معنوں میں ہجرت وہی کہلائی جاتی ہے جو اللہ کی راہ میں کی جائے اور ہجرت کرنے والا اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ کے دین کی خاطر اپنے آبائی وطن کو خیر آباد کہہ کر کسی ایسی سر زمین کی جانب ہجرت کر جائے جہاں وہ اپنے مقصد کی تکمیل کر کے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی حاصل کر سکے۔

ہجرت ایک ایسا عمل ہے جس کو پیغمبروں کا عمل کہا جاتا ہے کیونکہ پیغمبران کرام نے جب جب بھی یہ محسوس کیا کہ ان کے اوپر خود ان کے وطن کی سر زمین تنگ ہو چکی ہے تو وہ اپنے اصحاب کو ہمراہ لیکر کسی نہ کسی ایسے علاقے کی جانب منتقل ہو جانے پر مجبور ہوتے رہیں ہیں جہاں وہ اللہ کے حکم کے مطابق سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

کسی گروہ انسانی کا ہجرت کے بعد “مہاجر” کہلانا ایک بہت ہی عام سی بات ہے۔ بے شک “مہاجر” کسی قوم کا نام نہیں ہوتا کیونکہ ہجرت ایک “عمل” کا نام ہے جو کسی یا بہت ساری قوموں کو اختیار کرنی پڑتی ہے۔ ہجرت کرنے والوں میں کئی اقوام یا قبیلے جب کسی دوسری سر زمین پر جا کر آباد ہو تے ہیں تو وہاں پر موجود ساری قومیں، قبیلے یا مختلف پہچانیں رکھنے والی آبادی ان نئے آنے والوں کی ایک پہچان بنالیا کرتی ہیں اور یہ پہچان “مہاجر” کہلا نے لگتی ہے۔

جب پاکستان بنا تو جو خطہ زمین “پاکستان” کہلایا، اُس خطہ زمین پر دوسری جانب سے آنے والے “مہاجر” کہلائے جانے چاہئیں تھے لیکن “پاکستانیوں” نے وسعتِ قلبی سے کام لیتے ہوئے انھیں ایک دن کیلئے بھی “مہاجر” کہہ کر نہیں پکارا یا باالفاظ دیگر ان کی پہچان ہجرت کے حوالے سے نہیں بنائی گئی بلکہ وہ کئی دھائیوں تک “ہندوستانی” ہی کہلائے جاتے رہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد اگر سب سے بڑی کوئی اور ہجرت دیکھنے میں آئی وہ افغانی تھے۔ افغانستان سے آنے والے افراد میں کئی قبیلے اور قومی شامل تھیں لیکن ان کی پاکستان میں جو پہچان بنی وہ ہجرت کے حوالے سے بنی جس کی وجہ سے وہ تین تین چار چار دھائیاں گزرجانے کے باوجود بھی “افغان مہاجرین” ہی کہلائے جاتے ہیں۔ 1947 کی تقسیم ہند کے بعد لاکھوں کی تعداد میں پاکستان آکر آباد ہونے والے مہاجروں اور افغانستان کے حالات بہت زیادہ بگڑ جانے کے نتیجے میں پاکستان میں آباد ہونے والے افغان مہاجروں میں جو فرق تھا وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے، خواہ بصد رضا و رغبت آئے ہوں یا حالات کی سنگینی نے ان کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہو، اس کے پس پردہ وجہ صرف اور صرف “پاکستان” رہی۔ ہندوستان کی سر زمین کسی بھی ایسے مسلمان کو آج بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں جس کے دل میں ذرہ برابر بھی پاکستان کیلئے کوئی نرم گوشہ پایا جاتا ہو لہٰذا ایسے سارے مسلمان جو پاکستان کی تحریک میں شامل رہے، خواہ وہ بارضا و رغبت آئے ہوں یا حالات نے انھیں نقل مکانی پر مجبور کیا ہو، وہ پاکستان کی جانب چلے آئے۔ افغانستان سے آنے والوں کا معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے اس لئے کہ کوئی ایک بھی افغانی پاکستان میں اس لئے داخل نہیں ہوا کہ وہ افغانستان کو پاکستان بنانا چاہتا تھا۔ نیز یہ کہ وہ پہلے بھی عارضی طور پر یہاں آ کر آباد ہوئے تھے اور اب بھی مستقل سکونت ان کی سوچ سے بہت دور ہے۔

ہوا یوں کہ وہ “ہندوستانی” جو جانے کیلئے آئے ہی نہیں تھے ان کے دل میں “مہاجر” کہلانے کا ایسا سودا سمایا کہ وہ پورے پاکستان سے اپنی مخالفت مول لے بیٹھے۔ پاکستان کو بے شک ان سے یہ شکایت بجا ہی سہی لیکن اگر دیانتداری سے خود پاکستان اپنی کچھ امتیازانہ سوچ کا جائزہ لے لیتا یا اب بھی اپنی سوچوں کا اعادہ کر لے تو اس میں پاکستان اور سابقہ “ہندوستانی”، دونوں کا بڑا فائدہ ہے۔ مہاجر کہلوائے جانے کی ضد نامناسب ہی سہی لیکن اتنی بھی نہیں کہ کسی ایسی قوم پر کچھ ایسی پابندیاں لگادی جائیں جو پاکستان میں آباد کسی بھی کمیونٹی پر لگائی جائیں تو رد عمل ایسا ہی آئے گا جو سابقہ “ہندوستانیوں” کہلائے جانے والوں کی جانب سے آ رہا ہے۔ بے شک ان کا “مہاجر” کہلائے جانے پر اڑ جانا بہت غلط ہی سہی لیکن “کوٹا سسٹم” جیسے قوانین بنا کر، ان پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر کے، ان کے علاقوں کی ملیں، کارخانوں سے ان کو دور رکھ کر، سیکیورٹی اداروں میں مناسب نمائندگی نہ دیکر، سیاسی آزادیوں سے محروم رکھ کر، ان کے شہر سے حاصل ہونے والی آمدنیوں کو ان کے شہر پر خرچ نہ کرکے اور ان کے تعلیمی اداروں میں پاکستان بھر کے طالب علموں کا کوٹا بڑھا بڑھا کر ان کیلئے تعلیم جیسی سہولتوں کو مسدود کرکے، اگر عملی طور پر پورا پاکستان ان کو ان کو “ہندوستانی” بنانے پر مجبور کرتا جائے گا تو وہ ضرور یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ بے شک وہ اپنے آپ کو مہاجر کہیں یا نہ کہیں مگر وہ ہیں تو “مہاجر” ہی۔

ساری بحث کا ماحاصل یہی ہے کہ پاکستان کو اپنے کوٹا سسٹم سمیت، ہر امتیازانہ رویے کو بدلنا ہوگا ورنہ باہم مشورے نہ ہونا دلوں کی دوریاں تو بڑھا سکتا ہے، انھیں قربتوں میں تبدیل نہیں کر سکتا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔