لمحہ فکریہ

امی جان ۔ ۔ ۔ امی جان یہ دیکھیں بھارت میں لوگ بیچارے کرونا سے مر رہے ہیں کوئی ان کی ہیلپ کرنے والا نہیں ہے ؟کیسے تڑپ رہے ہیں وہ لوگ۔”بارہ سالہ حزیفہ موبائل پہ بھارت کی ویڈیو دکھاتے ہوئے بولا اور میں اس کے معصوم بے سکون چہرے کو دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گئی ایک خوفناک کھیل جو ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ سوشل میڈیا پہ کھیلا جا رہا تھا کہ سوشل میڈیا پہ وائرل کی جانے والی یہ ویڈیوز اس قدر دل دہلا دینے والی بنائی گئیں اور رحم کی اپیل اس انداز میں کی جا رہی ہیں کہ پاکستانی قوم گوڈوں گوڈوں ان کے غم میں ڈوبی جارہی ہے۔

 مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ غیر مسلم پہ ترس نہیں آنا چاہیے ہاں مگر افسوس کہ اس پر تو ہم ان کے لیے بے چین ہو رہے ہیں کہ جو آفت قدرت کی طرف سے نازل ہو رہی ہے انھیں کسی انسان نما درندوں نے تو اس حال کو نہیں پہنچایا ناں۔ہماری غیرت۔ہمارے درد اس وقت کیوں نہیں جاگے جب لاچار کشمیریوں اور بے بس فلسطینیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ انھیں سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے ۔گھروں میں بھوکا پیاسا محصور کر دیا جاتا ہے وہ بیمار ہوں لاچار ہوں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے گھروں کے اندر ہی دفنانے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔اس وقت ان کی امداد کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی؟جب مسجد اقصیٰ کے معصوم نمازیوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ان کی عورتوں کے گلوں میں دوپٹے ڈال کر گھسیٹا جاتا ہے اور ان کی آہیں عرش چھو رہی ہوتی ہیں تب ان کے لیے ہم میں اور ہمارے بچوں میں تڑپ کیوں نہیں پیدا ہوتی ان درندوں سے تو لڑ سکتے ہیں ناں ان کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں ناں ان مظلوموں کی داد رسی کر سکتے ہیں ناں۔

تو اس وقت سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا رحم کی اپیل کیوں نہیں کرتا یا ہماری کوتاہی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنے مسلمان بھائی بہنوں کا درد بتا ہی نہیں پا رہے ان کے اندر امت مسلمہ کا درد پیدا نہیں کر پارہے؟ابھی بھی وقت ہے اپنی آنے والی نسلوں کو بچانا ہو گا ورنہ وہ غیر مسلموں اور ان کے چیلوں کے ہاتھوں اغواء ہو جائیں گے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔