القدس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ثانی کا منتظر ہے

صیہونی فوج نے حالیہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں نہتے فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ پھر دوران افطار، اور نماز تراویح میں بھی یہ حملے جاری رہے اور اسرائیلی فوجی قبلہ اوّل اور مسجد اقصی کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے۔

21 اگست 1969ء کو کئی دہائیاں پہلے  سانحہ مسجد اقصیٰ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیل مسجد اقصیٰ پر قابض ہو گیا تھا۔بیت المقدس، امت مسلمہ کا قبلہ اول، ہمارے لیے ازل تا ابد محترم و مقدس، اور ہماری نگاہوں کا مرکز ہے۔یہ وہ سر زمین ہے جس کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔

واقعہ معراج کے موقع پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے آسمانوں کا سفر کروایا گیا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی ہے۔

فلسطین کی سرزمین دیگر بہت سےانبیا کا تبلیغی مرکز اور ان کا مدفن ہے۔کئی صحابہ کرام بھی اس مقدس سرزمین کی خاک میں مدفون ہیں۔یہ مسلمانوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے اور ان کے لیے اس کا حصول ناگزیر ہے۔

13اگست 2020ء کو یہ دلخراش خبر معلوم ہوئی کہ “عرب ملک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے جو فلسطین کی سرزمین پر ناجائز طور پر قابض ہے۔” اس خبر سے مسلمانوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی اور وہ حیران و پریشان رہ گئے۔ خلیج کی چھ عرب ریاستوں میں سے عرب امارات پہلا ملک ہے جس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس کے حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اس سے معاہدہ اور سمجھوتا کرکے مسلمانوں سے غداری کی ہے۔

اس سے پہلے عرب ملک مصرنے 1979ء میں اسرائیل سے امن معاہدہ کرکے اور پھر دوسرے عرب ملک اردن نے 1994ء میں اسرائیل سے امن معاہدہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اب متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک ہے جس نے یہ قدم اٹھا کر فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپ دیا ہے۔

تاریخ کبھی اس منافقانہ قدم اور رویے کو معاف نہیں کرے گی۔اگر دنیا کے نقشے پر فلسطین ڈھونڈا جائے تو چھوٹے سے رقبے پر مشتمل بالکل ننھا منا سا ملک نظر آتا ہے۔ یہ ملک اتنا چھوٹا ہونے کے باوجود جہاد کی برکتوں سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔

دنیا کی دو بڑی ٹیک کمپنیوں گوگل اور ایپل نے25 جولائی 2016ء سے اپنے جاری کردہ دنیا کے نئے نقشے گوگل میپ اور ایپل میپ میں فلسطین کا جغرافیائی (اور تاریخی اور نظریاتی) وجود ختم کرکے اس سارے علاقے کو اسرائیل دکھایا ہے۔

7 جون1967ء کو بھی اسلامی تاریخ میں اہمیت حاصل ہے۔ اس دن تیسری عرب اسرائیل جنگ (چھ روزہ) میں اسرائیلی بالآخر مصر، اردن اور شام کے کچھ حصوں پر قابض ہونے کے ساتھ ساتھ باقی فلسطین اور بیت المقدس (جس کو یہودی یروشلم کہتے ہیں) پر بھی قابض ہو گئے تھے۔

یاد رکھیے! القدس صرف فلسطینیوں کا ذاتی یا ملکی مسئلہ نہیں۔ یہ پوری امت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہ ان کے لیے نظریاتی محافظ اور ان کے دلوں کی دھڑکن ہے لیکن یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کے لیے دلی اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے۔ کیونکہ اس وقت فلسطینی قوم اسرائیلی شکنجے میں جکڑی بدترین ظلم و تشدد برداشت کر رہی ہے۔ اور “المدد المدد” پکار کر امت مسلمہ کو بلا رہی ہے۔یہ مسلمانوں کا وہ اہم ترین بین الاقوامی ایشو ہے جس پر سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔

یہودی نرغے اور صیہونی تسلط میں فلسطینیوں کے لیے دائرہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ القدس کے پریشان حال باسی اسرائیلی روایتی و ایٹمی اسلحہ، ٹینکوں، توپوں اور بموں کی بھرپور زد میں ہیں اور قلیل وسائل و ذرائع اور اسلحہ اور کم افرادی قوت کے باوجود پوری قوت ایمانی سے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ ٹینکوں کی جنگ پتھروں سے لڑرہے ہیں لیکن ہتھیار ڈالنے اور شکست تسلیم کرنے کے بارے میں سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب خانہ کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کو بھیج سکتے ہیں، تو وہ ان شاءاللہ بیت المقدس کی بھی حفاظت فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ظالم اسرائیلیوں کی رسی دراز کر رہا ہے مگر اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔

خلافت عثمانیہ کے آخری بااختیار حکمران سلطان عبدالحمید ثانی نے فلسطین کے بارے میں یہودیوں کو ببانگِ دہل کہا تھا۔”میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا۔ کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے۔ اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیےاپنا خون بہایا ہے۔”

قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے بارے میں فرمایا تھا۔”یہ امت کے قلب میں گھسایا گیا خنجر ہے۔اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔”

سودی عرب وہ واحد ملک ہے جس کے بادشاہ شاہ فیصل نے کہا تھا کہ”اگر ساری عرب دنیا اسرائیل کو تسلیم کر لے تو پھر بھی سعودی عرب اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔”

وسائل واسباب اور اسلحہ کی قلت کے باوجود فلسطینی کامل استقامت سے اسرائیل کے مقابلے میں ڈٹے کھڑے ہیں۔ شام و فلسطین، کشمیر، برما اور جہاں بھی مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے، وہاں مجاہدین اسلام اپنے خون سے تاریخ کا دھارا بدلنے کی تگ و دو میں اپنے جان ومال اور اپنی اولادیں قربان کر رہے ہیں۔ بہت جلد مظلوموں کا خون رنگ لائے گا اور اسلام غالب آئے گا۔ غازیوں اور سرفروشوں کی اسلام کے لیے دی گئی قربانیاں اپنی تاثیر دکھائیں گی۔ ان شاءاللہ۔

اسرائیل اس وقت “گریٹر اسرائیل” بننے کے نشے میں اندھا ہوچکا ہے لیکن اسرائیل فلسطینیوں پر جتنے بھی ظلم کر لے اور اور دنیا والوں پر اپنی قوت و طاقت کا جتنا بھی مظاہرہ کر لے، ظاہراً وہ کبھی جہان پر مکمل طور پرغالب نہیں آسکتا اور کبھی سپرپاور بھی نہیں بن سکتا۔

ہاں، صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ اسے کسی اور ملک کا مکمل سہارا ملا رہے۔ خواہ وہ ظاہری سہارا امریکہ، چین، روس، انڈیا یا کسی اور ملک کا ہو۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ

ترجمہ: “ان پر ذلّت اور محتاجی مسلط کر دی گئی ہے اور وہ اللہ کے غضب میں گھرے ہوئے ہیں۔” (البقرہ: 61)

سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

ترجمہ: “ان پر ذلت مسلط کر دی گئی ہے جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں سوائے اس (صورت) کے کہ وہ اللہ کی رسی اور لوگوں کی رسی کو تھام لیں۔”(112)

اسرائیلیو! جان لو! فلسطین اس وقت تمہاری بنائی گئی دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ لیکن یہ بہت جلد خود تمہاری اپنی جیل، تمہارا مقام عبرت بلکہ تمھارا قبرستان بنے گا۔ اور فلسطین کو آزادی حاصل ہو کے رہے گی۔ان شاءاللہ

عالمی امن کے دعوےدارو! جان لو کہ دنیا میں عدل و انصاف کی فراہمی کے بجائے ظالموں کا ساتھ دینا بےانصافی اور بدامنی کی بنیادی وجہ ہے۔اور یہ دنیا میں بے چینی و اضطراب اور بغاوت کو جنم دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ٹھیکیدارو! جان لو کہ جب تک لوگوں کو ان کی آزادی کا حق نہیں دیا جاتا، ان کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے جاتے، تب تک دنیا کے کسی خطے میں امن و سکون قائم نہیں ہو سکتا۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ”امت مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے۔ اگر جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔”

فلسطین اسی طرح ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے۔اس کا درد ہمارا درد، اس کا دکھ ہمارا دکھ، اور اس کا غم ہمارا غم ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کا اخلاقی، سفارتی اور عملی ساتھ دے کر ان کو قوت وطاقت مہیا کرنی ہے، اور کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کا سامنا کرتی اس مظلوم لیکن باہمت ملت کے غموں کا بھرپور مداوا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

اسی قسم کی افسوسناک صورتحال کا سامنا کشمیر جنت نظیرمیں مسلمان کر رہے ہیں۔ جہاں مظلوم کشمیری مسلمان 5 اگست 2019ء سے تقریباً دو سال سے اپنے گھروں میں مقید ہیں۔ کشمیر کے سرسبز و شاداب علاقے کو ظالم ہندو بنیے نے جیل میں بدل دیا ہے۔

اب دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے اور ظالموں کی بھرپور مذمت کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو دست دعا کے لیے دراز کریں۔ انفرادی و اجتماعی دعاؤں میں انہیں مسلسل یاد رکھیں۔نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کریں۔

اپنے بچوں، اپنی نسلوں اور اپنے طلبہ وطالبات کو اس کی اہمیت وفضیلت سے آگاہ کریں اور عصر حاضر میں اس کی موجودہ صورت حال سے واقف رکھیں۔

اپنے قلم کو حرکت میں لائیں۔ تقریر و تحریر کے ذریعے اپنے زندہ اور فعال کردار کو اجاگر کریں۔

اپنی ڈی پیز اور اسٹیٹس پر بیت المقدس کی تصاویر لگائیں۔ کم از کم چند فقرے، چند لائنیں، اپنا مافی الضمیر، اپنے احساسات، اپنے نظریات وغیرہ خود تحریر کریں اور ان کو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

اس کے علاوہ اس موضوع پر دوسروں کی تحریروں اور شاعری وغیرہ کو بھی فارورڈ کریں۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر اور دیگر ایپس پر ان کو بھرپور شیئر کریں۔ اور زندہ مسلمان قوم ہونے کا ثبوت فراہم کریں۔

قبلہ اول کی آزادی مسلم حکمرانوں پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ فلسطین زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے!!!

یہ میری قوم کے حکمران بھی سنیں

میری اجڑی ہوئی داستان بھی سنیں

صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں

کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں

میں فلسطین ہوں، میں فلسطین ہوں

آج فلسطین پھر عمر فاروق ثانی رضی اللہ عنہ کا منتظر ہے۔