جتنا دبیں گے، دبائے جاتے رہیں گے

دو تین ہفتے قبل ملک میں شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ اس ہنگامے سے بھی تین چار ماہ قبل حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا تھا جس میں اور بہت ساری باتوں کے علاوہ فریقین میں یہ بات بھی حتمی طور پر طے کر لی گئی تھی کہ فرانس کے سفیر کو اس کے اپنے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔ معاملہ بہت سنجیدہ تھا۔

 فرانس آزادی اظہار کا بہانا بنا کر ہمارے پیاری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل توہین پر توہین کئے جا رہا تھا اور نہایت بے ہودہ خاکے بنا کر مسلسل ان کی ہتک کئے جا رہا تھا۔ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ ہر قوم، ہر قبیلہ، ہر ملک اور ہر دھرم رکھنے والے کو اپنے اپنے رہنماؤں سے ایک ایسا جذباتی لگاؤ ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک اپنے رہبر و رہنما کیلئے جان جیسی انمول شے بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ یہ تو وہ رہبر و رہنما ہوتے ہیں جن کی حیثیت محض دنیوی ہوا کرتی ہے، جب ان کیلئے محبت کا یہ عالم ہو تو پھر وہ ہستیاں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خاص طور سے انسانوں کی ہدایت کیلئے مبعوث کی گئی ہوں، ان کی عزت و توقیر کیلئے تو دنیا جہان کی ہر شے قربان کی جا سکتی ہے۔

 اگر حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا جائے تو دنیا کا ہر مہذب اور ہر معتدل سوچ رکھنے والا انسان یہی کہتا نظر آئے گا کہ ہمیں کسی کے بھی مذہبی جذبات کو نہیں چھیڑنا چاہیے اور کم از کم ایسی ہستیاں جو ہر قوم پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی گئی ہوں، ان کی توہین تو کسی بھی صورت میں نہیں کرنی چاہیے۔ فرانس ہو یا کوئی بھی مغربی ملک، وہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مذہب شمار کئے جاتے ہیں۔ پوری دنیا کی ان کے متعلق یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی مذہب والے سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتے۔

 ایسی اقوام کی جانب سے مذہبی منافرت کا اگر ایسا مظاہرہ سامنے آئے کہ وہ شعائر اسلامی کی اس بری طرح ہتک کریں، توہین آمیز خاکے بنائیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے آخری کتاب ہدایت کو نذر آتش کریں تو اس عمل کو کسی بھی صورت میں اعتدال پسندانہ قرار دیا ہی نہیں جا سکتا بلکہ یہ انداز مجنونانہ اور غیر امتیازانہ ہی کہلائے گا۔ وہ یورپی اقوام جو مسلمانوں پر مذہبی جنونی ہونے کا الزام عائد کرتی ہیں اور ان کے ہر عمل و رد عمل کو انتہا پسندانہ کہنے میں لمحہ بھر بھی توقف نہیں کیا کرتیں، کبھی اپنے پاگل پن پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتیں۔

اس منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو رد عمل کے طور پر تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے حکومت کے سامنے جو مطالبہ رکھا گیا اور حکومت نے اس کی تائید میں فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا جو وعدہ کیا وہ بالکل بھی غلط نہیں تھا لیکن چار ماہ کے اندر اندر حکومت حسب سابق اپنے وعدے سے منحرف ہو گئی اور بجائے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے، ایک جانب اپنے ہی سپاہیوں کی تاریخی پٹائیاں لگوائیں بلکہ سپاہیوں کی پٹائیوں کو بہانہ بنا کے نہایت بے دردی کے ساتھ مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر بدترین ریاستی جبر کرتے ہوئے کئی کو شہید اور درجنوں  کو زخمی کردیا۔

مظاہرے کسی بھی ملک میں ہوں، مظاہرین گلپاشیاں کبھی نہیں کیا کرتے، یورپین ممالک ہوں، مسلم و غیر مسلم ریاستیں ہوں یا امریکا ہی کیوں نہ ہو، جہاں جہاں بھی مظاہرین کو ریاستی جبر کا سامنا ہوتا ہے، لاٹھی، گولیاں، پتھر ڈنڈے چلتے دیکھے گئے ہیں اور ذاتی و سرکاری املاک نذر آتش کرنا معمول کا ایک حصہ دکھائی دیا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکل کر آگ و خون کی ہولیاں کھیلتے نظر آتے ہیں، ان کے غم و غصے کے پیچھے کیا مذہبی جنون کارفرما ہوا کرتا ہے۔ کیا ایوبی دور سے لیکر تاحال پاکستان میں سارے پر تشدد واقعات کے پیچھے مذہبی منافرت ہی کار فرما رہی ہے۔ کیا سیاسی اتحادوں نے کبھی ذاتی اور سرکاری املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ کیا بے نظیر کی موت پر گوادر تا خیبر، ہر سرکاری و نجی املاک کو راکھ کا ڈھیر نہیں بنا دیا گیا تھا۔

کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایسے مظاہرے جن کی راہیں ریاست مسدود کرتی ہے، ہر مہذب اور غیر مہذب ملک میں پر تشدد رخ اختیار کر لیتے ہیں لہٰذا یہ سمجھ لینا کہ تحریک لبیک نے محض “اسلامو فوبیا” کی وجہ سے ہی پر تشدد رویہ اختیار کیا تھا، بالکل غلط ہے۔

ایماندارانہ تجزیہ یہی ہے کہ تشدد کا راستہ فرانس کی جانب سے اختیار کیا گیا جبکہ پاکستان کی جانب سے صرف رد عمل سامنے آیا اگر ریاست رکاوٹ نہ بنتی اور فرانسیسی سفیر کو بلا کر سخت ترین احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا اور سفیر کو ملک بدر کردیا جاتا تو پورے پاکستان میں حکومت مخالف ایک مظاہرہ بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔

فرانس کے سفیر کو نکال باہر نہ کرنے کی دلیل کے طور پر عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر فرانس کے سفیر کے خلاف کوئی ایکشن لیا تو پورا یورپ ہمارے خلاف ہو جائے گا اور پاکستان کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اگر غور کیا جائے تو بات ہے تو بہت وزنی لہٰذا مان لیتے ہیں کہ پاکستان نے سفیر کو ملک بدر نہ کرنے کا جو قدم اٹھایا وہ مستحسن ہی تھا لیکن کیا اس دوستانہ انداز پر فرانس سمیت تمام یورپی ممالک آپ کے ممنون ہوئے۔ پاکستان نے جس خوف کے مد نظر سفیر کو ملک بدر نہیں کیا، وہ اب اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر پاکستان کے سامنے آ رہا ہے۔ یوپی یونین نے پاکستان پر نہ صرف پہلے سے کہیں زیادہ پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ وہ اب پاکستان کی ناک تک رگڑوانے پر اتری ہوئی ہے۔

یاد رکھیں پاکستان ان کے سامنے جتنا جھکتا جائے گا، جھکایا جاتا رہے گا۔ پاکستانی حکومت نے اگر بر وقت فرانس کے سفیر کو نکال باہر کیا ہوتا تو کم از کم پاکستانیوں کا دل ضرور جیت لیا ہوتا لیکن اب نہ تو پاکستانیوں کے دل حکومت کے ساتھ ہیں اور نہ ہی یورپ پاکستان سے خوش ہے۔ ہر بات کا ایک ہی حل ہے اور وہ صرف اور صرف “اُس” کے آگے سجدہ ریزی ہے لیکن 1947 سے لیکر 2021 تک ہم اسے ماننے کیلئے تیار نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔