کنار نیل چھا گئی پھر ایک بار شام غم

رمضان کا مہینہ دلوں  میں نرمی لاتا ہے دلوں کی سختیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ رمضان کی ابتداء ہی میں عرش سے منادی کرا دی جاتی ہے،” اے خیر کے تلاش کرنے والے! آگے آ، اور اے شر کے تلاش کرنے والے! رُک جا۔ اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کردیاجاتا ہے، اور یہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔‘‘

اللہ تو رب کائنات ہے ہر چیز کا مالک اور بادشاہ ہے اسی نے انسان کو زمین میں  اقتدار دیا ہے عزت دی ہے۔ پھر اللہ ہی کے اذن سے بنے دنیا کے وقتی و عارضی بادشاہ  بھی اس ماہ مبارک میں  معمولی جرم میں قید افراد  یا جن پر جرم ثابت نہ ہوا ہو تو ان کو رہا کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ بد بخت بھی ہوا کرتے ہیں۔ جو اس رحمتوں کے مہینے میں بھی اپنی سیاہ کاری میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔  اللہ اچھائی کی توفیق ہر کسی کو نہیں  دیا کرتا ہے۔ جو خیر طلب کرتا ہے اسے ہی خیر عطا کی جاتی ہے۔

خبر ہے کہ” پیر کے روز مصر کے جنرل سیسی نے حافظ قرآن و عالم دین  اسی 80 سالہ عبدالرحیم جبریل کو پھانسی دے دی”۔ ان کو 2013  میں پولیس اسٹیشن پر بلوہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ اس واقعے کے وقت وہاں اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے موجود بھی نا تھے۔ ان پر جرم ثابت نہیں ہوا مگر ان کو 16 مزید افراد کے ساتھ  پھانسی دے دی۔ انہیں جس سیل میں رکھا گیا تھا وہاں پانی تک کی سہولت موجود نہ تھی۔ ان کی عمر اور بیماری کا بالکل کوئی لحاظ نہ رکھا گیا تھا ۔ دن میں صرف ایک گھنٹے کے لئے حاجات ضروریہ کے لئے نکالا جاتا تھا۔ پیر کے روز ان کو روزے کی حالت میں پھانسی دے دی گئ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

میرے حضورﷺ دیکھئے پھر آگیا مقام غم

بہ سایہ صلیب پھر بھرے ہیں جام غم

کنار نیل چھاگئی پھر ایک بار شام غم

پھر ایک کارواں لٹا

مصر کی سرزمین پر صدیوں  متکبر فرعونوں کا راج رہا ۔ نیل نے تو بہت جابر حکمران دیکھے ہیں جنہوں نے صدیوں ظلم کا بازار گرم کئے رکھا ۔ پھر نیل گواہ ہے کہ خدائی کا دعویدار فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت ایسا غرق ہوا  پیچھے کوئی نہ بچا۔ ان کے محلات دہرے کے دہرے رہ گئے آج ان کی زبان تک  جاننے والا بھی کوئی نہیں۔

نیل اس کا بھی گواہ ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی کا تعلق یہیں سے تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مصر کی فتح کے ساتھ تاکید فرمائی کہ قبطی قوم سے نرمی کرنا، یہیں سے امام بوصیری (رح) بھی تھے جنہوں نے  قصیدہ بردہ لکھا۔ جن کو خواب میں رسول اللہ ﷺ نے  چادر مبارک عطا کی۔ اور  یہیں سے حسن البناء اور  سید قطب کے   اللہ غایتنا (اللّٰہ ہمارا مقصد) اور والرسول زعیمنا (رسول ہمارا قائد) کے  نعرے باطل اور طاغوت کے دل میں آج بھی  تیر بن کر اترتے ہیں ۔ پھر محمد مرسی جو مصر کے پہلے منتخب صدر تھے مگر فراعنہ کی سرزمین انہیں بھی نگل گئی۔ نیا فرعون  ہر کچھ عرصے بعد خون کے بھینٹ چاہتا ہے۔ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں رمضان کا مہینہ ہے۔

فراعنہ کی سرزمیں،ہمیشہ خوں بہ جام ہے

ہمیشہ خوں بجام ہے۔وہ پھربھی تشنہ کام ہے

خود کو فرعونوں سے منسوب کرانا زیادہ پسند ہے اسی لئے گولڈن پریڈ میں فرعونوں کا اکرام کر سکتا ہے۔ وہی فرعون کہ جن کو عبرت کا نشان بنایا گیا ان کی منتقلی کے لئے پرشکوہ تقریبات ، کنیزوں اور باندیوں کے ہجوم خود بہ نفس نفیس سلوٹ کرتے ہوئے وصول کرنا۔ ایسے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد آتی ہے۔

“عرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو گا” (الفتن)۔

ایک اور جگہ فرمایا “سب سے پہلے فساد مصر اور عراق میں ہوگا” (کتاب الفتن) 

قومیں اپنی ہلاکت کا خود بندوبست کرتی ہیں اللہ کا طریقہ نہیں کہ وہ یونہی کسی کو ہلاک کر دے۔ اتنے سال بعد بھی مولانا نعیم صدیقی صاحب کی نظم حالات پر صادق آتی ہے۔

خود اس کے پاسباں تھے وہ جن کے درمیاں لٹا

بدست دشمناں نہیں بدست دوستاں لٹا

پھر ایک بار کوئے یار میتوں سے پٹ گئی

جنوں کی کھیتیاں پکیں سروں کی فصل کٹ گئی

حضور کی سپاہ کی ایک اور صف الٹ گئی

ہر ایک دور وقت کا خود اپنا ایک یزید ہے

ہر ایک دور کا حسین بے گناہ شہید ہے