چین کی خلائی تسخیر کی جستجو

چین نے حال ہی میں اپنے خلائی اسٹیشن ”تھین حہ ” کا کور ماڈیول کامیابی کے ساتھ لانچ کیا جسے خلائی شعبے میں انسانی تحقیق سے متعلق ایک اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ چینی زبان میں، ”تھین ” کو آسمان سے موسوم کیا جاتا ہے اور ”حہ ” کا مطلب ہے ہم آہنگی۔

چین نے افلاک اور زمین کے درمیان ہم آہنگی اور قدرت اور انسان کے درمیان ہم آہنگی کی امید ظاہر کرتے ہوئے خلائی اسٹیشن کے کور ماڈیول کو ”تھین حہ ” کا نام دیا ہے۔چینی سماج میں افلاک، کرہ ارض اور لوگوں کے مابین ہم آہنگی اور قدیم چینی فلسفیانہ افکار کا مظہر ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے باہمی اعتماد اور امن کو فروغ دینے کے لئے چین کی مخلصانہ کوششوں کا اظہار کرتا ہے۔

یہ لانچنگ چین کے خلائی اسٹیشن مشن کے نئے دور میں کامیابی کا اعلان ہے جسے عالمی برادری کی جانب سے بھی بھرپور سراہا گیا ہے۔ اس کور ماڈیول کی مجموعی لمبائی 16.6 میٹر، قطر 4.2 میٹر اور ٹیک آف وزن بائیس اعشاریہ پانچ ٹن ہے۔ یہ مستقبل میں خلائی اسٹیشن کے انتظام اور کنٹرول کا مرکزی حصہ ہے جس میں تین خلاباز سائنسی تحقیق کے لیے طویل عرصے تک قیام کر سکتے ہیں۔ خلائی اور زمینی ماحول کے درمیان وسیع ماحولیاتی تفریق کے باعث کور ماڈیول کے موجودہ خلائی سفر کے دوران روبوٹ آرم ٹیکنالوجی وغیرہ جیسی نئی ٹیکنالوجیز کی توثیق کی جائیگی۔

چینی خلائی اسٹیشن کے منصوبے کے مطابق سال 2021تا 2022کے دوران گیارہ لانچنگ مشنز عمل میں لائے جائیں گے۔ جن میں تین خلائی اسٹیشن ماڈیول کی لانچنگ، کارگو خلائی جہاز کی لانچنگ اور خلائی جہازوں کی لانچنگ شامل ہیں۔اس خلائی اسٹیشن کی 2022 تک مدار میں تکمیل کی جائے گی جبکہ چین کا خلائی اسٹیشن مسلسل پندرہ سال تک مقررہ مدار میں کام کر سکے گا۔

رائے عامہ کے نزدیک خلائی تحقیق میں چین کا کشادہ رویہ اور بین الاقوامی تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اہم پیش رفت نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ خلائی تحقیقات کے سلسلے میں چین کی جانب سے زیادہ سے زیادہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں چین نے خلائی شعبے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، نئی سائنسی اور تکنیکی اختراعات اور انسانیت کی خدمت کے لئے خلا کے مثبت استعمال کو فروغ دیا ہے۔ بے دو نیویگیشن سیٹلائٹ نیٹ ورک کے استعمال سے لے کر مریخ کی کھوج اور اب خلائی اسٹیشن کے بنیادی ماڈیول کی کامیاب لانچنگ تک، چین کی قابل ذکر کامیابیاں بے مثال ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چین اس کامیابی کی جانب اکیلا ہی محو سفر رہا ہے بلکہ خلائی تحقیقات میں چین کی شراکت اور بین الاقوامی تعاون کی دنیا گواہ ہے۔

چین کی یہ کامیابی اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم داستان ہے۔ خلائی شعبے میں اپنی اہمیت منوانے کے لیے چین کو مغربی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔مغربی خلائی کمپنیوں کو چینی خلائی ایجنسیوں کے ساتھ رابطوں اور تعاون سے باز رکھا گیا۔ ان پابندیوں کے باوجود چائنا ایرو اسپیس نے ترقی کا سفر جاری رکھا اور مسلسل جدوجہد سے موجودہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔اپنے اپنے خول میں بند چند مغربی ممالک کے برعکس چین ہمیشہ پرامن، مساوات، باہمی فائدے اور مشترکہ ترقی کے اصولوں پر کاربند رہا ہے۔ چین نے ہمیشہ خلائی اسٹیشن کو سائنسی اور تکنیکی تعاون کے لئے ایک کھلا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی ہے۔ چین نے اپنے خلائی تحقیقی منصوبوں میں بین الاقوامی برادری کو ہمیشہ شریک رکھا ہے۔

چین پرامن مقاصد کے لئے بیرونی خلا کو استعمال کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہے اور بیرونی خلا میں اسلحہ سازی کی یا اسلحے کی دوڑ کی مخالفت کرتا ہے۔نیز سنہ 2016 میں چین نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے بیرونی خلائی امور کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت چین نے عالمی برادری بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو اپنی خلائی ٹیکنالوجیز اور تجربات سے مستفید کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک کا خیرمقدم کیا ہے کہ وہ تحقیق کے لیے چین کے خلائی اسٹیشن کا استعمال کریں۔ یہ اقدام اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرونی خلا انسانیت کا مشترکہ وسیلہ ہے۔اس طرح بہتر منظم بین الاقوامی تعاون سے انفرادی ممالک کے خلائی پروگراموں کے اخراجات کم ہوسکتے ہیں، بہتر بین الاقوامی تفہیم کو فروغ مل سکتا ہے اور پرامن مستقبل کی تعمیر میں مدد مل سکتی ہے۔

کائنات انتہائی وسیع ہے اور اس سے وابستہ انسانی کھوج اور تحقیق بھی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ چین اپنے خلائی خواب کو پوری انسانیت کے مشترکہ خواب کے طور پر دیکھتا ہے لہذا چین کے خلائی اسٹیشن کو خلا میں عالمی برادری کا ایک مشترکہ گھر قرار دیا جا سکتا ہے۔