جذبہ شکر

دنیاوی زندگی میں انسان کو دو طرح کے حالات سے سابقہ پڑتا ہے ۔کبھی بہت خوشگوار حالات اور بعض اوقات انتہائی تکلیف دہ حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ان موقعوں پر انسان دو طرح کے ردعمل دیتا ہے ایک شکرگزاری کا اور دوسرا ناشکری کا۔

کوئی شخص خوش حال زندگی بسر کرنے کے باوجود بھی اپنی زندگی میں ناشکری کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لیتا ہے اور کوئی شخص تنگی کی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی اللّه کا شکر ادا کرتا ہے ۔اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک گلاس جو آدھا بھرا ہوا ہو کسی شخص کو دیا جاتا ہے تو وہ اس کے آدھا خالی ہونے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور اگر وہی گلاس کسی دوسرے شخص کو دیا جاتا ہے تو وہ اس کے آدھے بھرے ہونے پر شکر ادا کرتا۔اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کے سوچنے کے انداز سے ہی انسان میں شکر گزاری یا نا ناشکری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔

دنیا میں ڈپریشن کے بڑھتے مسائل کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے پاس موجود بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ان چیزوں کے لئے روتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہیں ۔ انسان کے اسی رویے پر اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں :

“ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو ۔(سورۃ الاعراف 10 )

انسان کو جب کوئی نعمت ملتی ہے تو اس پر یوں خوش ہوتا ہے جیسے وہ اسے اسکے ذاتی کمال کی بدولت ملی ہو جبکہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہے اور جب کوئی مشکل پیش آئے تو ناشکری کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ مشکل اس کے اپنے کاموں کے نتیجے میں اس پر آئی ہے ۔

“انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ پھول جاتا ہے اور اگر اس کے اپنے ہاتھ کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو سخت ناشکرا بن جاتا ہے ۔(سورہ الشوری 48 )

انسان کی ناشکری کی سب سے بڑی مثال بنی اسرائیل کی ہے ۔ قرآن میں جگہ جگہ ان کی ناشکری کے قصے ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں ہدایت دی ،ظالم فرعون کے چنگل سے آزاد کروایا، ان کے لیے سمندر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ۔ حتی کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے آسمان سے من و سلویٰ بھی اتارا لیکن وہ ناشکری کی روش سے باز نہ آئے اور اللہ تعالی سے اناج کا مطالبہ کیا جب کہ وہ جانتے تھے کہ وہ من و سلویٰ کے مقابلے میں ایک ادنیٰ چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں :

حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ۔(سورۃ العدیٰت 6)

اسلام میں ناشکری سے بچنے کے لیے بہت آسان سا حل بیان کیا گیا ہے کہ ‘دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو’ ۔بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ اگر ہم اس بات پر عمل کرنا شروع کردیں تو ہمیں اپنے پاس موجود بہت سی نعمتوں کی اہمیت معلوم ہونا شروع ہوگی جو دوسروں کے پاس نہیں ہے اور یہ اندازہ ہوگا کہ ان تمام نعمتوں کو جنہیں ہم ضائع کر دیتے ہیں وہ دوسروں کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس طرح نعمتوں کو ضائع کرنے اور ناشکری سے بچنا آسان ہو جائے گا اور ہمارے اندر احساس تشکر پیدا ہوگا ۔

“جو کوئی شکر کرے تو اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللّه بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے ۔”(سورہ لقمٰن 12)

اس آیت میں اللّه نے واضح کر دیا کہ اللّه کی ذات اس بات سے بے نیاز ہے کہ ہم اس کا شکر ادا کریں یا نہیں بلکہ یہ شکرگزاری ہمارے اپنے فائدے کے لئے ہیں ۔

“اگر تم شکر ادا کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دیا جائے گا ۔”(سورۃ ابراہیم 7)

شکر کے حوالے سے ایک خوبصورت دعا حضورﷺ نے ہمیں سکھائی ہے اور نماز کی بعد پڑھنے کی تلقین کی ہے ۔آپ بھی اسے اپنی دعاؤں کا حصہ بنائیں ۔

اے اللّه تو مجھے اپنا ذکر کرنے، اپنا شکر کرنے اور اپنی عبادت کو خوبصورتی کے ساتھ ادا کرنے میں میری مدد فرمائیں ۔آمین ۔