زکوٰۃ کی ادائیگی صرف مرد کی ذمہ داری نہیں

زیادہ تر امور مالیات عو رتوں ہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے عورتوں کو ہی زکوٰ ۃ کا حساب کتاب رکھنا چاہئے صرف مردوں پر ہی یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی عورتیں اس میں بھی برابر کی شریک ہیں اور ادائیگی کا پورا پورا حق رکھتی ہیں بلکہ زیادہ محتاط ہو کر یہ کام کرسکتی ہیں اور کرنا بھی چاہئے ۔

آج کل تو اس کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ آج پرانے وقتوں کی طرح عورت صرف گھر میں بھی ذمہ داریاں اٹھاتی ہے اور معاشی امور بھی دیکھتی ہے، ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے کوئی احسان نہیں کرتی ہزاروں کماتی ہیں اورنہیں بھی کماتی تو ماشا ء اللہ میاں کی طرف سے بہن بھائیوں کی طرف سے باپوں کی طرف سے بہت کچھ ملا ہوتا ہے اور وہ بسا اوقات ایک عام کمانے والے مرد سے بھی زیادہ جا ئیداد کی مالک ہوتی ہیں اور اس میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے ایسے میں انہیں بھی دین کے اس فریضے کی ادائیگی کا پورا پوراحق دینا ہے تاکہ انکا بھی مال پاک ہوجائے اور معاشرے کے ضرورت مند افراد اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں ۔

بہانہ بنا کر یا چالاکی دکھا کر زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنا گناہ ہے یہ تو اللہ تعالیٰ نے مستحقین کا حق رکھا ہوا ہے اسی کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا کبھی بھی کسی کو بھی بھاری نہیں لگنا چاہئے۔ واقعی کتنی اچھی مثال دی ہے دینے والے نے سمجھنے کے لئے اشارہ کافی ہے ۔ رب کی ذات نے اس لئے غور و فکر اور حکمت و دانائی کو اپنا کھویا ہوا مال سمجھنا قرار دیا ہے جو بالکل صحیح ہے کہا کہ تربوز خریدتے ہیں پانچ کلو کا تو اس کو پورا نہیں کھاتے چھلکا اور بیج بھی تقریباً ایک ڈیڑھ کلو نکل جاتے ہیں ۔ اسی طرح مرغی مچھلی خرید کر یوں ہی نہیں کھا جاتے صفائی کے دوران اس کے پر ، بال، کھال اور پیٹ کی دیگر آلائشیں نکال کر آسانی سے پھینک دیتے ہیں۔ اس پر ہمیں کبھی بھی کسی کو بھی دکھ نہیں ہوتا۔ مطلب ایک اندازے کے مطابق ہر کھانے کی چیز کا تقریباً 20فیصد حصہ نکال پھینکتے ہیں یہاں تک کے کیلے بھی چھلکے نکال کر کھائے جاتے ہیں گو یا دیکھا جا ئے تو انکی بھی ایک طرح سے زکوٰۃ ہوگئی اب سوچئے کہ پھر ہم چالیس ہزار سے ایک ہزار زکوٰۃ دینے پر یعنی ڈھائی فیصد زکوٰ ۃ دینے پر اتنے کیوں کنجوس ہوجاتے ہیں یا تکلیف محسوس کرتے ہیں ؟ بھلا سو روپے سے صرف ڈھائی روپے نکالنا تربوز ، آم ، مالٹے کے چھلکوں سے کتنا کم ہوا تو اسے زکوٰۃ فرمایا گیا ہے ۔

یہی پاکی ہے مال بھی پاک اور آپ کا ایمان بھی پاک دل بھی سکون میں گویا جسم پاک معاشرہ بھی خوشحال، اتنی معمولی بات کہ چالیس روپے سے صرف ایک روپیہ خوشی سے ضرورت مند کو دے کر خود بھی خوش اور لینے والا بھی خوش کہ اپنی خوشی میں شریک کیا۔ اجر کتنا زیادہ اور پھر برکت کتنی زیادہ؟ اللہ تعالیٰ کی شان سبحان اللہ ہماری آزمائش ، امتحان زندگی آسان اور آخرت کا سامان سودا کسے نقصان دہ ہوسکتا ہے؟ یہ تو آگے بڑھنے کی بات ہے منزل سب کی ایک ہی ہے کوئی ہوائی جہاز میں سفر کر رہا ہے کوئی رکشہ میں کوئی پیدل اور کوئی لنگڑا کر تو کوئی گھسیٹ کر یہ فرق تو رب کی تقسیم ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں شکر گزاری ہی ہماری ذمہ داری بنتی ہے ۔ دنیا دارالامتحان ہے کہتے ہیں بیماری جسم و جان کی زکوٰۃ ہے ۔ کوئی بیماری پسند کرتا ہے؟ نہیں نا، پناہ مانگتے ہیں نا، تو شکر ادا کیجئے ۔ صحت کا، حلال کمائی کا اور پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کے احساس کا کہ یہ مہینہ ہر دن میرے اختیار میں نہیں میرے امتحان میں ہیں ۔ مجھے اپنی جوانی، کمائی اور اعمال کا لمحے لمحے کا حساب رب کریم کو دینا ہے اور وہ رب غفور الرحیم ہونے کے ساتھ ساتھ حساب لینے میں جلد باز اور منصف ہے۔ اللہ اکبر ہم اس کے حساب کونہیں پہنچ سکتے ہمیں تو بس ہر وقت اسکا رحم و کرم چاہئے ، سمجھانے والے کتنا اچھا سمجھا گئے ہیں کہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

مسلمانوں پر تو یہ فرض ہے ۔ دیگر فرائض کی طرح خوش اسلوبی سے اسے ادا کرکے بلکہ مزید اس سے آگے بڑھ کر صدقہ خیرات کرکے ہر کوئی اور خاص مخیر حضرات اور خواتین معاشرے کی بدحالی کو خوشحالی میں بدل سکتے ہیں ۔ کتنے مرد ہیں جو اکیلے یہ کام جیسے تیسے کرتے ہیں مگر خواتین تعاون نہیں کرتیں جس کی وجہ سے معاشرے کو اتنا فائدہ نہیں پہنچتا جتنا پہنچنا چاہئے ۔ خواتین تو اس طرح دیگر خواتین کی ضرورتمند خاندانوں کی مزید اچھی طرح پوشیدہ طور پر مدد کر سکتی ہیں اور اپنا رول بہت بہتر طریقے سے نبھا کر مزید عملی مثالیں قائم کر سکتی ہیں جو انہیں کرنا چاہئے ۔ پہلے سے سوچ سمجھ کر اچھی نیت سے کام شروع کریں اور پھر برکت دیکھیں۔ مردوں کی خوشحالی اور اطمینان دیکھیں۔  یہ سارے مرد حضرات ہمارے ہی تو بھائی بندے ہیں ان کو مجبوریوں میں جکڑنا اور پالیسی رکھنا خواتین کی مجبوری نہیں دین سے دوری ہے لا علمی ہے جب بھی سمجھ آجائے غنیمت جانئے اور نیکی کے کرنے میں دیر نہ کریں کیونکہ اگلے وقت کا بھروسہ نہیں سب کچھ ہوتے ہوئے وقت ہی تو پرایا یہ کل کا تو کیا پل کا بھروسہ نہیں زندگی کا سفر کتنا عجیب اور پر اسرار ہے بقول شاعر

“یہ سفر بھی کتنا طویل ہے ، یہاں وقت کتنا قلیل ہے

کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا جو چلا گیا وہ چلا گیا”

اس سے پہلے کہ وقت ہمیں چھوڑ جائے بچپن کی ایک نظم یاد آگئی شاید اسی لئے یاد رہی سنئے ۔

اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو بستر چھوڑو اور منہ دھو لو

اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے وقت کا کھو نا ٹھیک نہیں ہے

سورج نکلا تارے بھاگے دنیا والے سارے جاگے

تم بھی اٹھ کر باہر جائو اپنے وقت کا لطف اٹھائو

گو یا بیدار ہو جائو اور فرائض کی ادائیگی میں دیر نہ کرو زکوٰۃ دو اور خوشیوں کا صحیح لطف اٹھائو اس دعا کے ساتھ کہ رب کریم اسے قبول فر مائے ۔ آمین