چھوٹی سی چڑیا

میں ایک چھوٹی سی چڑیا ہوں۔ نازک و ناتواں۔ جب سے ہوش سنبھالا زندگی کا مقصد بس یہ ہی جانا کہ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرنی ہے اور تنکا تنکا جوڑ کر ایک آشیانہ بنانا ہے۔ میری زندگی کا محور بس میرا وہی آشیانہ اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ پورا دن رزق کی تلاش میں سرگرداں رہ کر شام ڈھلے جب میں اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی تھی تو لگتا تھا کہ بس یہی حاصل کل ہے۔

چند چھوٹی چھوٹی خواہشیں تھیں کہ میرے بچوں کی پرواز مجھ سے بہت اوپر ہو اور جب وہ اپنا آشیانہ بنائیں تو وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں سردی گرمی۔ ہوا بارش سے محفوظ ہو۔کسی ایسی اونچی شاخ پر جہاں کسی کا ڈر نہ ہو  ۔ بس اسی تگ ودو میں زندگی کے شب و روز تھے کہ اچانک ایک دن  وہ انہونی ہوئی جس نے مجھے سر تا پا بدل ڈالا۔

 آگ کے آسمان کو چھوتے شعلے تھے۔ ہر سمت لگتا تھا آگ کی چنگاریاں ہوں ایک لمحے کو لگا کہ سب خاک ہونے والا ہے ایک بھی چنگاری مجھے اور میرے آشیانے کو خاکستر کر سکتی تھی اور بس  یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے زندگی کے مقصد اور موت کی حقیقت کو جانا۔ میرے رب کی کوئی تخلیق مقصد سے خالی نہیں تو میری تخلیق مقصد سےخالی کیسے ہو سکتی ہے۔ سارے خوف پیچھے چھوڑ کر میں نے پل بھر میں یہ جانا کہ میں اتنی بھی ارزاں نہیں جیسا میں نے خود کو سمجھ لیا تھا۔ میری چونچ میں جتنا پانی سمایا وہی لے کر میں اس آگ کی سمت لپکی جس میں ایک نبی برحق کو ڈالا جانا تھا اور اس کو بجھانے کی اپنی کمزور سی کوشش ۔

بے شک آگ اس کمزور کوشش سے نہیں بجھ سکتی تھی لیکن اس کو شش نے مجھے بہت مضبوط بنادیا۔ مجھے لگا آج میں نے اپنی حقیقت کو جانا ہے  ۔ آگ تو اللہ کے اذن سے بجھ ہی جائے گی لیکن اس کو بجھانے کی میری کوشش نے میرے کردار کو امر کر دیا ۔

اور آج پھر میرے اردگرد کفروشرک، بے حیائی، دھوکہ و فریب، دین کی مغلوبیت کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔  میراکشمیرجل رہا ہے آگ کشمیر، فلسطین ،شام ،مصر، عراق سے میرے آشیانے تک آ پہنچی ہے۔آج اس کا نشانہ ایک مومن نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ ہے ۔ آج پھر اسی چڑیا کی ضرورت ہے جو میں اور آپ ہیں۔

 اس آگ کو بجھانے کے لیے میرے اور آپ کے قلم میں موجود سیاہی کی وہ چند بوندیں ہیں جو آگ کو بجھا تو نہیں سکتیں کہ وہ تو اذن الہی سے ہی بجھے گی لیکن مجھے اور آپ کو ضرور اپنے مقصد حیات میں سرخرو کر سکتی ہیں۔