نوجوانوں کا محفوظ مستقبل کس کے ہاتھ؟ ( حصہ اول)

انیلہ افضال ایڈووکیٹ

اگر بات اولاد کی پرورش کی ہے تو یہ کام جانور بڑے احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کا کام اولاد کی پرورش سے بڑھ کر ہے اور وہ کام ہے تربیت جی ہاں، تربیت جو نسلوں کی پہچان ہوتی ہے اور جس پر قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔

معاشرے کی اصلاح کی جس قدر آج ضرورت ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ آج لوگ برائی پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں، جو اخلاقی زوال کی انتہا ہے۔ نوجوان نسل کو سمت دکھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے والدین اپنا کردار ادا کریں۔ اگر ہم لوگ انفرادی اور اجتماعی جائزہ لیں تو کوئی بھی شخص اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں اور بھیڑ چال کی سی صورتحال ہے۔

 پہلے ماں باپ اور بڑے لوگ نوجوان نسل کی تربیت کرتے تھے، لیکن آج یہ کام موبائل اور انٹر نیٹ کے سپرد ہو چکا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری اولادیں، والدین اور بزرگوں کا احترام نہیں کرتیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نصاب میں تبدیلی کرے اور طلبہ کو ملک سے محبت، اخلاقیات اور قوانین سے آگاہی کا درس دیا جائے۔ نوجوان نسل ملک و ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا درخشندہ ستارہ ہوتے ہیں۔ قوم کی ساری امیدیں انہی سے وابستہ ہوتی ہیں۔

دنیا کی ہر تحریک نوجوان ہی کی جدوجہد سے کامیاب ہوتی ہے۔ نوجوانوں میں پہاڑوں کو ہلانے اور دریاؤں کے رخ موڑ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

موجودہ دور پُر آشوب بھی ہے اور مادیت زدہ بھی۔ ہر معاشرے میں علم و تحقیق اور فکر و آگہی الغرض سبھی میدانوں کے لیے شہسواروں کی ضرورت ہے، جو اپنے معاشرہ و ملت کے مستقبل کی قیادت سنبھال کر اقوام عالم میں اپنا نام بلند کر سکیں۔ اس امر میں شک کی گنجائش قطعاً نہیں کہ وطن عزیز میں ایک طویل مدت سے کئی دیگر حساس معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے کسی بہتر حکمت عملی اور واضح منصوبہ بندی کی از حد کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کر سکے، بلکہ ان میں سے اکثر نوجوان ایسی راہ پر چل نکلے جو نہ صرف ان کی بلکہ ملک و ملت کی بہتری کے لیے کسی طور بھی مناسب نہ تھی۔

آج کی نوجوان نسل کو کئی اطراف سے ایسے مسائل درپیش ہیں، جو اس کی شخصیت اور کردار پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل اپنے آباء کے کارناموں سے قطعاً ناواقف ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری نوجوان نسل درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے؟ اگر ہاں! تو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے نوجوان جلد ہی ستاروں پر کمندیں ڈال لیں گے، لیکن اگر اس سوال کا جواب نا میں ہے، تو آنے والا وقت بڑا خوفناک ہونے والا ہے۔

 آئیے! ایک نظر نوجوان نسل کے چلن پر ڈالتے ہیں، مگر اس کے لیے ہمیں اپنی آنکھوں سے مامتا کا چشمہ اتارنا ہو گا اور شیر کی نگاہ سے اس نئی نسل کا تنقیدی جائزہ لینا ہو گا۔

سب سے پہلے جس عفریت نے نوجوان نسل کو اپنے شکنجے میں کسا ہے، وہ تمباکو نوشی ہے۔ نوجوان اسٹائل کے لیے اس عادت بد میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر اس کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ٹوبیکو انڈسٹری کی جانب سے اپنی پروڈکٹ کی فروخت کے لیے جو تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں، ان کا ہدف نوجوان ہی ہیں۔ سگریٹس ابھرتی ہوئی روش ہے، جو نوجوان نسل اپنا رہی ہے۔ وطن عزیز میں سگریٹس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں، حتی کہ کالج کی بچیاں بھی بہت تیزی سے تمباکو سے متاثر ہو رہی ہیں، ہمیں تمباکو کے روک تھام کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔

اس کے لیے حکومتوں کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، اگرچہ کہ اس معاملے میں سخت قوانین بھی بنائے گئے ہیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ مگر اصل فقدان تربیت کا ہے، جس کی ابتداء پہلے گھر اور پھر درسگاہوں سے ہوتی ہے۔

اکیسویں صدی نے نوجوانوں کو ایک نیا تحفہ انٹر نیٹ کی صورت میں دیا ہے۔ دنیا سمٹ کر ہماری ہتھیلی میں آ گئی ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اس نئے دور کی ٹیکنالوجی کا اصل ہدف بھی نوجوان نسل ہی ہے۔ ایسا بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس برائی میں اس طرح گرفتار ہوتے ہیں، کہ آخر میں ان کے پاس خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ اب اس دور جدید میں انٹر نیٹ کے استعمال سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا، مگر اپنی نئی نسل کو اس کے منفی اثرات سے بچایا تو جا سکتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس سلسلے میں سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے انٹرنیٹ کے استعمال کے ساتھ نوجوان نسل کو سائبر کرائمز سے بچانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ سائبر کرائمز سے بچاؤ، متعلقہ قوانین، سزائیں تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔