خودکشی آخر کیوں ؟

      ” خود کشی آخر کیوں ؟ ” یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا مشکل ہے اور اس سوال کا سامنا ہم سب کو اپنی زندگی میں کئی بار کرنا پڑتا ۔ ہمیں اپنے ملک میں آئے روز خودکشی کے واقعات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ہر خودکشی کرنے والا جو سوال چھوڑ جاتا وہ سوال یہ ہے کہ آخر اس خودکشی کی وجہ کیا تھی ؟

 اپنے ہوش وحواس میں اپنی جان لینے کا نام خودکشی ہے اور انگریزی میں اسے ” Suicide ” کہا جاتا ہے ۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ہر ملک اس مسئلے کو  ختم کرنے میں ناکام ہوا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا ہر چالیس سیکنڈ میں ایک خود کشی کا واقعہ رپورٹ ہوتا ہے اور ہر سال آٹھ لاکھ سے سولہ لاکھ تک لوگ خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کے چراغ گل کر دیتے ۔

      عہد حاضر میں خودکشی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ خودکشی کا تعلق ذہنی تناؤ سے ہے انسان جب پریشان ہوتا ہے کسی چیز کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے تب اسے خودکشی کے خیالات آنے لگتے ۔ خودکشی کرنےوالے افراد احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار بنانے میں ہمارا معاشرہ منظم ہوا ہے ہمارے ہاں ایک شخص کو دوسرے شخص سے تقابل کیا جاتا دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا اور چھوٹی سے چھوٹی بات پر تمسخر اڑایا جاتا ہے جس سے لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر اس لعنت کی آگ میں کود جاتے ۔

      دنیا بھر میں خودکشی کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ تناسب نوجوان طبقے کا ہے اس کے بعد متوسط یا نچلے طبقے کے لوگ خودکشی کرتے اور پھر امیر لوگ بھی اس لعنت سے آزاد نہیں ۔ خودکشی کا تعلق انسانی سوچ اور دماغی حالت پر ہے اور معاشرے کے محرکات اس پر اثرانداز ہوتے ۔ نوجوان طبقہ محبت میں ناکامی ملنے پر ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے اور پھر خودکشی کو ترجیح دیتے اس کے علاوہ متوسط طبقے کے لوگ بڑھتی مہنگائی ، اخراجات اور افلاس سے تنگ آ کر موت کو گلے لگا لیتے ۔

    خودکشی کی بڑی وجوہات میں بے روزگاری، غربت، تنہا پسندی، رشتوں میں عدم توازن، منشیات کا استعمال، مہلک یاناقابل علاج بیماری، ادویات کا بے دریغ استعمال ، گھریلو جھگڑے ، کردار پر تہمت ، تشدد ، غیرت کے نام پر قتل ، امتحانات میں ناکامی ، عدم تحفظ، خوف، مایوسی سمیت دیگر عوامل ہیں۔ اس دنیا میں سب سے مشکل فن ہر حال میں مسکرانا ہے اور یقینا ہر کام میں اللہ کی بہتری ہوتی ہے اس نے ہمارے لیے اچھا سوچ کر رکھا ہوتا اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔ ناامیدی ، مایوسی کے عالم میں خودکشی کر لینا کسی مسئلے کا حل نہیں ۔

      اگر خودکشی جیسی لعنت سے اپنے معاشرے کو پاک رکھنا ہے تو اس میں اساتذہ، علماء، سیاست دان، صحافی، ڈاکٹرز، ماہرین نفیسات، وکلا، شعرا و ادبا و دیگر  شعبوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا ۔ اپنے گھر میں موجود بے روزگار شخص کو ناامید نہیں ہونے دینا ، بچوں و بچیوں کی کم عمر میں شادی نہیں کرنی اور اپنے قرب و جوارمیں بسنے والے ہر طبقے کے لوگوں  کا خاص خیال رکھنا  ہو گا ۔ اپنی خوشی کو دوسرے کی مدد کرنے میں تلاش کرو اور دوسروں کے لیے جب ہم سوچھیں گے تب یہ خودکشی جیسے خیالات آنا بند ہوں گے اور حکومت سے بھی گزارش کروں گا کہ ملک میں خودکشی سے بچاؤ کے لیے عملی اقدامات کرے۔