رمضان اور متزلزل ایمان

ماہ مبارک رمضان کورونا کی احتیاطی تدابیر کیساتھ رواں دواں ہے اور پچھلے سال کی نسبت کہیں بہتر انتظامات کیساتھ مساجد میں عبادات کا اہتمام جاری ہے۔ تاحال موسم اتنا سخت نہیں کے روزہ داروں کیلئے کسی مشکل کا سبب بن رہا ہو، البتہ ملک کے داخلی حالات تشویشناک دیکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک تو دم توڑتی دیکھائی دے رہی ہے۔

دوسری طرف فرانس میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں کی گئی گستاخی کے بدلے فرانسسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا چلا جا رہا ہے۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ کسی مغربی ملک نے ہمارے ایمان کی سلامتی کو جھنجھوڑا ہواور اسکے لئے ہمارے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی ہو۔ ایک مسلمان کیلئے اس سے بڑھ کر اور کوئی تکلیف دہ بات نہیں ہوسکتی اور وہ مسلمان جو نبی پاک ﷺ سے ناصرف سچی محبت رکھنے کا دعویدار ہو بلکہ عملی طور پر بھی آپ ﷺ کی طرز کی ریاست بنانے کا خواہشمند ہو، ایسی خواہش ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب بارہا ساری دنیا کے سامنے دہراتے رہے ہیں اور جہاں تک ممکن ہورہا ہے اسکے لئے عملی اقدامات کرتے بھی دیکھائی دے رہے ہیں۔

 فرانس نے تاریخ میں پہلے بھی ایسی گستاخیاں کی ہیں،سلطان عبدالحمید کے نام سے تو تقریباً قارئین واقف ہی ہونگے اور اکثریت کی واقفیت بطور عاشق رسول ﷺ کے ہوگی۔ ہمیں بھی سلطان عبدالحمید سے عقیدت حب رسول ﷺ سے منسوب واقعات جان کر ہوئی۔ سلطان عبدالحمید کے دور میں بھی ایک ایسا ہی واقع رونما ہوا، یہ وہ دور تھا جب عظیم خلافت ِ عثمانیہ کا چراغ گل ہونے سے قبل ٹمٹما رہا تھا لیکن عاشقِ رسول ﷺ کا جذبے کی شدت میں کوئی کمی نہیں تھی فوری طور پر فرانس کے سفیر کو بلواکر اس پر دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ وہ اپنے حکمران تک یہ بات پہنچا دے کہ اگر گستاخی کا سلسلہ بند نہیں ہوا تو پھر جنگ کیلئے تیار ہوجائے، یہ سچے عاشق ﷺکی گرج تھی جس نے یقینافرانس کے محلات کی بنیادیں ہلادیں اور فرانس کو اپنے کئے پر معافی مانگنی پڑی۔

یو ں سلطان عبدالحمید تاریخ میں ایک سچے عاشق ﷺ سے پہچانے جانے لگے اور ایک روشن ستارے کی طرح تاریخ کے اوراق میں جڑ دیئے گئے۔ دنیا کے مسلمان اس بات کی برملا گواہی دینگے کہ پاکستان وہ واحد مملکت ہے کہ جس کے باشندوں یعنی پاکستانیوں کی اپنے نبی ﷺ سے محبت لازوال ہے۔ اگر مسلمان زمینی حقائق کی بات کریں اور ایک ایسے مسلئے پر جس کی وجہ سے ہمارا ایمان کو ہی خطرہ لاحق ہوجائے تو پھر کیا کرینگے۔

۹۶۹۱میں ایک اسلامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور اسکا موجودہ نام اسلامی تعاون کی تنظیم (OIC)ہے، ستاون ۷۵ مسلم ممالک اسکا رکن ہیں اور صدر مقام سعودی عرب میں ہے۔ جس کے وجود کا تذکرہ کتابوں میں تو ملتا ہے لیکن عملی کردار پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ وہ کس اسلام کے دفاع کی تنظیم ہے اورکہاں اپنا کردار ادا کر رہی ہے، آج تک اس تنظیم نے مسلمانوں کا کون سا مسئلہ حل کروایا ہے یا کسی مسئلے میں سامنے آکر کھڑی ہوئی ہو، ہمیشہ ہنگامی مذمتی اجلاس منعقد ہوتے ہیں بغیر کسی خاطر خواہ عملی قرارداد کے اختتام پذیر ہوجاتے ہیں۔دیکھا جائے تو دنیا میں آج مسائل صرف مسلم ممالک کو ہی درپیش ہیں اور مسلم ممالک کی آپسی چپکلشیں زیادہ دیکھائی دیتی ہیں۔

گستاخی رسول ﷺ کا مسئلہ ہر ایک مسلمان کا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہے کوئی اس کوتاہی پر مفاہمت نہیں کرسکتا۔ لیکن کیا صرف پاکستان کی عوام اپنی حکومت پر ڈالنے کا ہنر جانتی ہے کیا دوسرے معاشرے جو اپنے آپ کو مہذب کہلوانا چاہتے ہیں اپنے اپنے سربراہوں سے رسول ﷺ کی شان میں کی جانے والی گستاخی کا بدلہ مانگنے کی جسارت نہیں رکھتے۔ اگر یہ ستاون ممالک ایک زبان ہوکر فرانس بلکہ ساری دنیا کو یہ باور کرادیں کہ آئندہ اگر کسی بھی ملک کے باشندے نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کی تو ہم اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادینگے۔

واقعات کا تسلسل جاری تھا کہ حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ ۰۲ اپریل تک فرانسسی سفیر کو ملک بدرکردیا جائے گا۔ اس حتمی تاریخ دینے کی کیا وجہ تھی اور کیوں دی گئی شائد یہ تاریخ میں رقم کیا جائے گا۔ لیکن اب جبکہ ۰۲ اپریل آنے والی تھی تو تحریک لبیک نے اپنے معاہدے کی یاد دہانی حکومت وقت کو کروائی جس کے جواب میں حکومت وقت نے ایک اور لعل مسجد و جامعہ حفصہ کے سانحہ کی یاد تازہ کرنے کا عندیہ دے دیا، ایک اور ماڈل ٹاون کاحادثہ رقم کرنا شروع کردیا۔

 حکومت نے تحریک لبیک کے احتجاجی مظاہروں کو پہلے دن سے ہی آڑے ہاتھوں لیا اور جو کچھ ہوتا رہا سماجی ذرائع ابلاغ جوں کا توں پیش کرتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم صاحب اس قسم کے ظلم و بربریت کے اقدام کی حمایت کرسکتے ہیں جو ساری دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں کشمیر کے مسلئے کے حل کیلئے بار بار بھارت کو میز پر بات کرنے کی دعوت دے رہے ہیں یا پھر وزیر داخلہ جناب شیخ رشید احمد صاحب جو ماضی کا وسیع تجربہ اپنے ساتھ لئے گھومتے ہیں کی بنیاد پر اس سارے معاملے کو اپنے طور سے نمٹانے کے خواہش مند دیکھائی دئیے۔

شیخ صاحب عملی طور پر یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے دیکھائی دے رہے ہیں کہ وہ وزیر اعظم صاحب کی ریاست مدینہ کے خواب کو چکنا چور کرنے نکلے ہیں۔سب سے زیادہ جانوں اور املاک کا نقصان لاہور میں ہوا ہے جسکی وجہ تحریک لبیک کا مرکز بھی وہیں ہے۔ بھلا یہ کسی ریاست مدینہ کی داغ بیل ہے۔

حکومت وقت کا تقریباً رجحان معیشت کی درستگی پر لگا ہوا ہے اور تقریباً توانیاں معیشت کو بہتر سے بہتر بنانے میں لگی ہوئی ہیں اور معیشت دانوں کے تجزئیے کے مطابق فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنے کا معاملہ  مزید معاشی بحران کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ تعلقات صرف فرانس سے نہیں بلکہ تقریباً یورپ سے ختم کرنے پڑینگے۔ کیا سلطان عبدالحمید کے ذہن میں ایسی کوئی بات آئی ہوگی یا پھر انکی معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہوگا لیکن کیا معیشت کی سوچ عشق رسول ﷺ سے زیادہ اہم ہوسکتی ہے۔ اب فیصلہ سیاسی بنیادوں پر حل کیا جائے گا کیونکہ یہ ایوان میں پیش کیا جارہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اکثریت ایوان نمائندگان منافقت کی ایک نئی مثال قائم کرنے کیلئے غیر حاضر ہوجائیں اور حکومت وقت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیاجاسکے۔

اب جب کہ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی کوششیں رنگ لائی ہیں اور ماہ رمضان کی حرمت کا تقاضا ہے کہ حکومت ہر ممکن جان و مال کی حفاظت کا انتظام کرے۔ حکومت جو پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پربنانے کا عزم لئے میدان عمل میں ہے پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فرانس کیساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے اور علماء و مشائخ سے مشاورت کی جائے پھر فرانس کے سفیر کو بلائے اور شدید الفاظ میں تنبیہ کرے کہ وہ اپنے صدر سے پاکستان کی عوام سے معافی مانگے نامہ لکھ کر دے کہ اس سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے اب وہ کبھی نہیں ہوگی اور وہ اپنی اس غلطی پر شرمندہ ہیں اور کسی ایسے فرد کو جو مسلمانوں کے جذبات مجروح کرے گا اسے کسی بھی طرح سے سرکاری مہمان نہیں بنایا جائے گا اور نا ہی کسی قسم کے اعزاز سے نوازا جائے گا۔ہمیں یقین ہے کہ جناب وزیر اعظم عوام کو ایک ایسا حل دینگے جو صرف تحریک لبیک نہیں بلکہ ناصرف پاکستانیوں بلکہ ہر ایک مسلمان کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کریگا اور سلطان عبدالحمید کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بھی ایک سچا عاشق ِ رسول ﷺ ثابت کرینگے۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اللہ کے کاموں میں لگتا ہے اللہ اسکے کاموں کو آسان کردیتے ہیں، ممکن ہے اسطرح سے ہماری معیشت کو کوئی معجزہ مل جائے اور ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ عشق کا جذبہ ستاون ممالک میں سے صرف پاکستانیوں میں کسی خاص مقصد کی نشاندہی ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ ایمان کی سلامتی کیساتھ ملک کی سلامتی کو بھی قائم و دائم رکھ اور حاکم وقت کو ایسا فیصلہ کرنے کی توفیق عطاء فرما جو دین کی سربلندی کا باعث بنے، آمین یا رب العالمین۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔